کراچی(این این آئی) پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے تناظر میں حکومت اور عدالت عظمیٰ کے درمیان ترجیحات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات پر پارلیمان کی قانون سازی آئین پاکستان سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ
آئین کی شق 191 سپریم کورٹ کو اپنے رسم و رواج اور طریقہئ کار پر قواعد و ضوابط ترتیب دینے کا اختیار دیتی ہے۔ اب اگر پارلیمان وہی اختیارات بذریعہ قانون سازی استعمال کرنے پر راغب ہو تو دو نتائج ابھر کر سامنے آ جائیں گے۔ اول یہ کہ عدلیہ کی خود مختاری مجروح ہوگی۔ دوئم، پارلیمنٹ عدالت کی آزادی میں مداخلت کی بنیاد پر مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے دائرہ اختیارات یا (separation of powers) اصولوں سے روگردانی کی مرتکب ہوجائے گی۔ اس طرح کے آئین سے متصادم قوانین کالعدم قرار پاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی آئینی ترمیم بھی دستور کے فریم ورک یا بنیادی ڈھانچے سے انحراف کی بنا کوئی متبادل نہیں۔ جسٹس وجیہ نے مزید بتایا کہ مجوزہ قانون اگر دونوں ایوانوں سے منظور بھی ہو جائے تو صدر پاکستان کچھ عرصہ غور فکر کیلئے اپنے پاس روک کر واپس بھی کر سکتے ہیں اور پھر دوبارہ ایسا قانون صدر کو ارسال کیا جائے تو قلیل مدت کے بعد وہ پارلیمان سے منظور کردہ تصور کیا جائے گا۔ لیکن اس کارروائی میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ جسٹس وجیہ نے مزید کہا کہ مسئلے کا واحد حل خود سپریم کورٹ کا اپنے استحقاق پر متعلقہ رولز وضع کرنا ہے، جو سپریم کورٹ میں دو آرا ہونے کے سبب مناسب انداز میں کیا جانا چاہیے۔