اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے دوصوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست سماعت کے دوران ااستفسار کیا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن صدر کی دی گئی تاریخ ختم کر سکتا ہے،آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا،ملکی تاریخ میں الیکشن کی تاریخ بڑھانے
کی مثالیں موجود ہیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر بھی الیکشن تاخیر سے ہوئے، انتخابات صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، اہم ایشوز اس کیس میں شامل ہیں جس میں سے فیصلے پر عملدرآمد بھی ایک معاملہ ہے جبکہ عدالت عظمیٰ نے انتخابات ملتوی کرنے پر الیکشن کمیشن اور گورنرز کو بذریعہ چیف سیکرٹری نوٹس جاری کردیا۔ پیر کو پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس درخواست پر سماعت کی۔بینچ میں شامل دیگر جج صاحبان میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ کو انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن نے 8مارچ کو پنجاب میں انتخاب کا شیڈول جاری کیا۔وکیل علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے عدالتی حکم عدولی کرتے ہوئے تاریخ کا اعلان نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے صدر کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے نیا شیڈول جاری کیا، الیکشن کمیشن نے تین بار خلاف ورزیاں کیں۔الیکشن کمیشن نے صدر کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے نیا شیڈول جاری کیا، الیکشن کمیشن نے تین بار خلاف ورزیاں کیں۔وکیل علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ 13 مارچ کو الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو منسوخ کر دیا، الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کو نئی تاریخ دی،
الیکشن کمیشن کو نئی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا، الیکشن کمیشن نے 90 روز کی مقررہ حد کی خلاف ورزی کی۔انہوں نے کہاکہ آئین میں الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے یا تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا، 90 روز سے زیادہ کی تاریخ کی آئین اجازت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کو نظر انداز کیا جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟
علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عملدرآمد کرائے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہائی کورٹ کا کام ہے۔علی ظفر نے بتایا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے، معاملہ صرف عدالتی احکامات کا نہیں، دو صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائی کورٹ نہیں سن سکتی، سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کر چکی ہے،
سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی ختم نہیں ہوا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔علی ظفر نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں سیکیورٹی صورتحال بہتر ہو گی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن صدر پاکستان کی دی گئی تاریخ کو ختم کر سکتا ہے،
اس معاملے پر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملکی تاریخ میں الیکشن کی تاریخ بڑھانے کی مثالیں موجود ہیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر بھی الیکشن تاخیر سے ہوئے، انتخابات صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، اہم ایشوز اس کیس میں شامل ہیں جس میں سے فیصلے پر عملدرآمد بھی ایک معاملہ ہے۔ جب تک فریقین راضی نہ ہوں ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت تاریخ بڑھانے کو قومی سطح پر قبول کیا گیا،
اس وقت تاریخ بڑھانے کے معاملے کو کئی چیلنج نہیں کیا گیا، 1988میں نظام حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہوئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آئین میں نگراں حکومت کی مدت کے تعین کی کوئی شق موجود ہے، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ معاملہ 90 روز میں الیکشن کروانے سے بھی منسلک ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کیا یکم مارچ کا حکم عدالتی حکم ہے؟ کیا صدر کی جانب سے دی گئی تاریخ 90 روز میں تھی یا نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میرے معزز ساتھی دستخط شدہ عدالتی فیصلے کا حوالہ دینا چاہ رہے ہیں،
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن صدر مملکت کی دی گئی تاریخ بدل سکتا ہے؟ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو بدلا ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس صدرکی دی گئی تاریخ بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں۔علی ظفر نے بتایا کہ نگران حکومت کا مقصد انتخابات کرانا ہوتا ہے جو 90 روز میں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ الیکشن 90 دن سے پانچ ماہ آگے کر دیے جائیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کر سکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی ہے، کیا یہ الیکشن کمیشن کے موقف میں تضاد نہیں ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام پانچ ججز کے دستخط ہیں، ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے دو فیصلے ہوں،
الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتا ہے؟جس پر وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 254 کا سہارا کام کرنے کے بعد لیا جا سکتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کام کرنے سے پہلے ہی سہارا لے لیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کر سکتا، آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا۔بعد ازاں عدالت نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرکے منگل تک جواب طلب کر لیا۔یاد رہے کہ دو روز قبل پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔چند روز قبل الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 30 اپریل کو شیڈول انتخابات ملتوی کرتے ہوئے 8 اکتوبر کی تاریخ دیدی تھی جبکہ گورنر خیبر پختونخوا غلام علی نے بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر 8 اکتوبر کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی تجویز پیش کی تھی۔