اسلام آباد (این این آئی)پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ و جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جو کام پاکستان تحریک انصاف کررہی ہے اگر کسی مذہبی جماعت نے یہ سب کیا ہوتا تو اسے دہشت گرد اور باغی قرار دیا جا چکا ہوتا اور فوج بھی اس کیخلاف حرکت میں آ چکی ہوتی،عمران بزدل،سیاست نہیں کرنی چاہئے،
ریاست کو اپنی عملداری کیلئے تمام توانائیاں بروئے کار لانی چاہئیں،پاکستان کو کمزور نہیں ہونے دیں گے، تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں چند کھلنڈروں کا جم گٹھا ہے،زلمے خلیل زاد کا بیان عمران کے غیر ملکی ایجنڈے کا نمائندہ ہونے بارے ہمارے موقف کی تائید ہے،انتخابات کے حوالے سے ملکی اقتصادی صورتحال کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا ریاست اول ہے یا عمران خان کی خواہش، عمران خان کی غلطیوں کی سزا پاکستان کو نہیں دی جا سکتی۔بدھ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جو کچھ اس وقت تک ہو رہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری عدالتوں کو ریاست کو طاقتور بنانا چاہئے، جو کچھ نظر آ رہا ہے اس میں عدالتوں کے رویئے سے بھی ریاست کمزور ہو رہی ہے اور باغی قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے،صورتحال بہت حساس ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس طرح کی حرکتوں کے عشر عشیر بھی کوئی مذہبی جماعت کرتی تو آج اسے دہشت گرد بھی قرار دیا جا چکا ہوتا، اسے باغی قرار دیا جا چکا ہوتا، اس کے خلاف فوج بھی حرکت میں آچکی ہوتی لیکن کیا وجہ ہے اور وہ کونسی قوتیں ہیں جو عمران خان جیسے فتنے کو تحفظ فراہم کررہی ہیں اور انہیں سپورٹ کررہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک بے رحم لیڈرشپ نے اپنے کارکنوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، عمران خان قانون سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک طرف کہتے ہیں ریاست مدینہ میں قانون کے سامنے سب برابر تھے
اور آج جب کوئی قانون ان کے خلاف حرکت میں آتا ہے تو انہیں استثنیٰ ہونا چاہئے، ان کی گرفتاری نہیں ہونی چاہئے۔سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ کیا عمران خان کے دور میں گرفتاریاں نہیں ہوئی لیکن وہ کسی پر بھی کوئی الزام ثابت نہ کر سکے، آپ اپنے آپ کو قانون کے حوالے کریں، آپ عدالت میں اپنا مقابلہ کریں اور کیس لڑیں، گھر میں چھپ کر آپ نے اپنے کارکنوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر کے ایک طرف ریاست کو کمزور کیا،
دوسری طرف دنیا کو یہ بتا دیا کہ میرا کارکن صرف مجھے جیل سے بچانے، قانون کی عملداری روکنے کے لئے ہے اور اس کے علاوہ کوئی ایجنڈا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ عمران خان پاکستان کو کمزور اور اس کے خاتمے کا ایجنڈا رکھتا ہے اور ان کا ایک ایک عمل ان خدشات کی تائید کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان بزدل ہیں لہٰذا انہیں سیاست نہیں کرنی چاہئے اور میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ عمران خان پاکستان کی سیاست کا غیرضروری عنصر ہے
اور قدم قدم پر وہ ثابت کررہا ہے کہ وہ ان حالات کا مقابلہ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ جس انداز سے وہاں کی ریاستی قوت کے ساتھ لوگ لڑ رہے ہیں، یہ کہاں سے آئے ہیں، ان کی تربیت کس نے کی ہے، یہ عام آدمی کی روش نہیں ہو سکتی جب تک کوئی تربیت یافتہ قوت وہاں موجود نہ ہو لہٰذا ایسے لوگوں کو فوری طور پر گرفتار کر کے عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ آج ہم نے دیکھا کہ سی آئی اے کا نمائندہ زلمے خلیل زاد عمران خان کے حق میں ٹوئٹ کررہا ہے
اور ان کی گرفتاری پر احتجاج کررہا ہے جس سے ہمارے اس موقف کی تائید ہو رہی ہے کہ یہ غیرملکی ایجنڈے کا نمائندہ ہے، ان کا ایجنٹ ہے اور انہی کی شے پر یہ سرا کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں ریاست کو اپنی عملداری کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لانی چاہئیں، ہم پاکستان کو کمزور نہیں ہونے دیں گے، تحریک انصاف کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ چند کھلنڈروں کا ایک جم گٹھا ہے اور ریاست کو کمزور شروع کرنے کیلئے انہوں نے جو سیاست شروع کی ہے
ان کے اس ایجنڈے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج عمران خان بات کررہے ہیں کہ الیکشن کرائے جائیں، ہم تو گزشتہ تین چار سال سے آپ سے کہتے رہے کہ مستعفی ہو جائیں اور الیکشن کرائیں تو آپ الیکشن سے کیوں بھاگتے رہے؟، کیوں فرار اختیار کرتے رہے اور پھر اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد آئی جس کے بعد تم نے جھوٹے کاغذ لہرائے، جھوٹا بیانیہ تیار کیا اور اب آپ الیکشن کے انعقاد پر زور لگا رہے ہیں لیکن ہمیں چند چیزوں پر تشویش ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت فاٹا میں صورتحال مختلف ہے،
وہاں امن و امان نہیں ہے، پورے خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال نہیں ہے اور وہاں اضلاع کے انضمام کے بعد مردم شماری کا مسئلہ ہے، نئے ووٹر لسٹ کا مسئلہ ہے جس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کا مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آج ملک میں مردم شماری ہو رہی ہے تو عجیب صورتحال ہو گی کہ دو صوبوں میں الیکشن ایک مردم شماری پر ہو گا اور پھر دو تین مہینوں کے بعد دوسرا الیکشن دوسری مردم شماری کی بنیاد پر ہو گا، ہم پاکستانیوں کے شہریوں کو کس طرح ووٹ کے حق سے محروم کریں۔ انہوں نے کہا کہ
ملک کو اقتصادی حوالے سے بھی دیکھنا ہے کہ کیا اس کے پاس محفوظ الیکشن کرانے کیلئے وسائل موجود ہیں؟، فنڈ موجود ہیں یا نہیں ہیں، یہ سب وہ مسائل ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ریاست اول ہے یا عمران خان کی خواہش اول ہے، عمران خان نے اسمبلیاں خود توڑی ہیں اور لیڈرشپ کو حکم دے کر تڑوائی ہیں، یہ وزرائے اعلیٰ نے نہیں توڑی ہیں اور پھر دیکھا جائے کہ کیا ان کا یہ فیصلہ عقلمندانہ تھا، کیا ان کا یہ فیصلہ پاکستان کے معروضی حالات سے مطابقت رکھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی غلطیوں کی سزا پاکستان کو نہیں دی جا سکتی، ہمیں حالات کو دیکھنا ہے، حالات کے مطابق چلنا ہے اور ایک محفوظ پاکستان اور محفوظ مستقبل کی بنیاد ڈالتے ہوئے اس قسم کے فتنوں سے پاکستان کو محفوظ رکھنا ہے۔