اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کیلئے آئینی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کرینگے، مردم شماری کا عمل وقت ضائع کئے بغیر مکمل کرنے کیلئے کوشاں ہیں، آئی ایم ایف سے گزشتہ حکومت نے آئینی و جمہوری طریقہ سے اپنی حکومت کا خاتمہ ہوتے دیکھ کر انحراف کیا،ہم نے اس معاہدے کی پاسداری کی،
توقع ہے معاہدہ جلد ہوگا، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں عام انتخابات کے انعقادبارے پارٹی رہنماؤں کو کاغذات جمع کرانے کی ہدایت کر دی ہے، پوری قوت اور تیاری سے انتخابات میں حصہ لیں گے، دونوں صوبوں میں انتخابات کے انعقاد بارے خدشات اور تحفظات کا حل الیکشن کمیشن نے نکالنا ہے۔بدھ کو سی پی این ای کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو آج معاشی اور سیاسی اعتبار سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، اتحادی حکومت کے حوالہ سے زیادہ بات نہیں کروں گا کہ وہ خود نمائی لگے لیکن معیشت کوسنبھالا دینے اور ملک کو آگے بڑھانے کیلئے تمام صلاحیتیں بروئے کار لائی جا رہی ہیں، ہماری حکومت کو 11 ماہ ہو چکے ہیں، معاشی اعتبار سے گزشتہ دورہ حکومت سے چلے آ رہے پاکستان دیوالیہ پن کے خوف سے نکل چکا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ میں ایسی شرائط تسلیم کرنی پڑ رہی ہیں جس کا عام آدمی پر بوجھ پڑنا ہے، آئی ایم ایف سے گزشتہ حکومت نے معاہدہ کیا اور جب جنوری،فروری میں انہیں علم ہوا کہ اس کے خلاف آئینی اور قانونی طریقے سے انہیں ہٹایا جارہا ہے تو اپنے ہی معاہدہ سے انحراف کیا،یہ کوئی نجی معاہدہ نہیں تھا بلکہ پاکستان کی ریاست کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تھا، اس انحراف کا جو نقصان ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور اب ایسی شرائط جو گزشتہ حکومت نے مانی تھیں اب آئی ایم ایف نے کہاکہ ان پر من وعن عمل کریں گے اور اس کے باقاعدہ جائزہ لینے کی بات کی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بات ماننی پڑی ہے اب ہمیں امید ہے کہ سٹاف لیول پر معاہدہ جلدہوجائے گا اور پھروہ بورڈکے پاس جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری 11 ماہ کی اتحادی حکومت ہے،یہ تاثر تھا کہ یہ اتحادی حکومت شہباز شریف نہیں چلا سکیں گے لیکن تمام اتحادیوں کے مثبت کردار کی وجہ سے یہ حکومت قائم ودائم ہے اور تاریخ میں پہلی اتحادی حکومت ان حالات میں یک جان دوقالب ہے اور آگیبڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے مشکل حالات میں فیصلے کئے،کفایت شعاری پر اجتماعی دانش سے فیصلہ کیاگیاجس پر فوری کابینہ کمیٹی بنائی گئی جس کے تین اجلاس ہوچکے ہیں اس پر بہت پیشرفت ہے،آئندہ ہفتہ اس کا اجلاس میں خود چیئر کروں گا۔انہوں نے کہا کہ حکومت سنجیدگی سے ان تجاویز پر عمل کرے گا۔تمام کابینہ ممبران بھی اس میں ساتھ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا
وفاقی حکومت نے خالصتا اپنے وسائل سے شفافیت کے ساتھ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اینڈی ایم اے کے ذریعے سیلاب متاثرین کے لئے سوارب روپے خرچ کئے،ہم ہر جگہ گئے۔جنیوا میں متاثرین کے لئے ہونے والی ڈونرزکانفرنس کے اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں ہیں تاکہ یہاں سے موصول ہونے والی امداد زلزلہ متاثرین میں تقسیم کر سکیں۔ترکیہ اور شام میں تباہ کن زلزلہ آیا،جس میں لاکھوں گھرتباہ اور کروڑوں بے گھر ہوئے،
ترکیہ پاکستان ایک ایسے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں ان کے لئے امدادی سامان بھجوا رہے ہیں،ترکیہ میں خیموں کی زیادہ ضرورت ہے،شام میں خوراک،ادویات اور کپڑوں کی ضرورت ہے،پاکستان کے عوام اس پر اپنا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں اور تسلسل کے ساتھ امدادی سامان بھجوایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات کا بروقت انعقاد آئینی اور قانونی ضرورت ہے اس سے ملک آگے چلے گا۔اس حوالے سے وفاق اپنے فرض کی ادائیگی نبھا رہا ہے،
2021 میں گزشتہ حکومت کے دور میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ ہوا تھا۔گزشتہ مردم شماری پر بعض صوبوں اور سیاسی جماعتوں کو شدید تحفظات تھے،یہ فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کا ہے اس کا باقاعدہ آغازہوچکا ہے،اس کے لئے فنڈز بھی فراہم کردیئے گئے ہیں۔اس پر بعض صوبوں کو اعتراضات ہیں ان کے ساتھ آج ملاقات ہے،وہ ان تحفظات کا ازالہ چاہتے ہیں،انہوں نے بھی معاونت کرنی ہے،ہم چاہتی ہیں کہ وقت ضائع کئے بغیر یہ کام مکمل ہو، ہم نے مالی چیلنجوں کے باوجود مالی معاونت کی ہے تاکہ یہ عمل بروقت مکمل ہو اور انتخابات کے بروقت انعقاد میں تاخیر نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں عام انتخابات کے حوالہ سے الیکشن کمیشن کو صوبائی حکومت نے دہشت گردی کے خدشات کے حوالہ سے تحریری آگاہ کیا ہے، ان معاملات کا حل الیکشن کمیشن نے نکالنا ہے، یہ فیصلہ میں نے نہیں کرنا۔ انہوں نے کہا کہ بطور مسلم لیگ (ن)کے پارٹی صدر میں اپنے امیدواروں کو یہ ہدایات جاری کر چکا ہوں کہ دونوں صوبوں میں اپنے کاغذات بروقت جمع کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ 75سال میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ صرف دو صوبوں میں انتخابات ہو رہے ہیں، اس کے کیا نتائج ہوں گے، یہ وقت بتائے گاتاہم اس کی جو قانونی اور آئینی ضرورت ہے
اس کو پورا کرتے ہوئے اپنی پارٹی کو ہدایات جاری کر چکا ہوں، کاغذات نامزدگی جمع کرائے جا رہے ہیں، پارلیمانی بورڈ میں ٹکٹ کیلئے درخواستیں جمع کرا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن سمیت کوئی بھی سیاسی جماعتی انتخابی عمل سے نہیں بھاگ سکتی، اگر ایسا کیا تو اس کا وجود ختم ہو جائے گا، اس پر کوئی شک نہیں ہو نا چاہئے کہ بطور صدر مسلم لیگ ن ہم پوری دلجمعی اور تیاری کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیں گے اور الیکشن کمیشن جو بھی فیصلہ کرے گا ہم اس پر عمل کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس ملک میں پہلی مرتبہ ایک ایسی صورتحال بن چکی ہے کہ ایک سیاسی شخص اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے،
عدالت عظمی سمیت ہر عدالت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کو انکاری ہے اور اپنی بیماری، بزرگی اور لاچاری کا واویلا کر رہے ہیں، اللہ پاک انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے، اگر وہ ریلیوں اور سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بن سکتے ہیں تو عدالتوں میں جانے کی بجائے اس پر دھاوے بولے جاتے ہیں، ججوں پر جملے کسے جاتے ہیں، کورٹ کے جنگلے توڑے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ریاست بچانے کیلئے اپنی سیاست تباہ کی، اگر ریاست کو بچانے کیلئے اپنی ساری سیاست بھی داؤ پر لگانی پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت عظمی کے منصب پر اللہ کے شکرگزار ہیں تاہم اس کے ساتھ بڑے چیلنجز بھی ورثہ میں ملے،
جب ہم اپوزیشن میں تھے تو ہمیں چن چن کر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، نواز شریف کو ہر روز ٹرائل کورٹ میں بلایا جاتا تھا اور وہ چھٹی والے دن بھی پیش ہوتے تھے، یہ بے بنیاد اور جعلی کیسز عمران خان کی حکومت اور ان کے حواریوں نے بنائے تھے، ان میں شہزاد اکبر پیش پیش تھا، انہوں نے کبھی عدالت پیشی سے انکار نہیں کیا، کوئی بیماری سمیت عذر پیش نہیں کیا، رانا ثنا اللہ پر جعلی کیس پر عدالتوں میں گھسیٹا گیا، اس کیس پر پی ٹی آئی کے رہنما قرآن اٹھا کر اس کے سچے ہونے کے دلائل دیتے تھے، رانا ثنا اللہ کو گھر کا کھانا نہیں دینے دیا گیا جبکہ جرم ثابت ہونے تک یہ ملزم کا حق ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک بیٹھ کر یہ کس نے کہا تھا کہ
میں ان کے سیلوں سے اے سی اور بیت الخلا کی سہولت ختم کر دوں گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ عمران خان کو نوٹس اور گرفتاری کے احکامات ہم نے نہیں عدالتوں نے دیئے ہیں، اگر عدالتیں ہمارے اوپر اتنی مہربان ہوتیں تو جب دہشت گردوں کی گاڑیوں میں مجھے لے جایا جاتا تھا تب میں ان کے سامنے اپنی بیماری کا عذر پیش کرتا تھا،مجھے چار ہفتے ایک آرڈر لینے میں لگے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے ایمبولینس میں عدالت میں پیشی کی استدعا کی تو یہ ایمبولینس وہاں موجود ہونے کے باوجود مجھے اس پر عدالت پیش نہیں ہونے دیا گیا، نواز شریف کو جعلی اقامہ پر وزارت عظمی سے ہٹایا گیا اور نااہل قرار دیا گیا اور عمران خان کو بنی گالا کی
غیر قانونی تعمیر کو ریگولر کرتے ہوئے انہیں صادق اور امین قرار دیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب ابصار عالم، مطیع اللہ جان اور دیگر کے خلاف کارروائیاں ہوئیں اس کا کسی نے نوٹس نہیں لیا، جو شخص عدالتوں کے سامنے پیش نہیں ہوتا وہ گویا اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کے سامنے آنے کے بعد بھی اگر عمران خان اپنے آپ کو صادق اور امین کہتا ہے تو اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں، چوری ایک روپے کی بھی ہوتی ہے اور کروڑوں کی بھی ہوتی ہے، توشہ خانہ کے حوالہ سے قانون موجود ہے کہ کس طرح سے وہاں قیمت لگنے کے بعد آپ اس کو رکھ سکتے ہیں، ہم نے اس میں تبدیلی کی اور قانون بنایا، اب اس پر کوئی عمل نہیں کرے گا
تو وہ خلاف ورزی ہو گی، اس سے قبل ایسا نہیں تھا، عمران خان نے کوئی عہدہ نہیں چھوڑا، انہوں نے جو تحفے بیچے یہ جرم ہے اور سب سے قیمتی اور متبرک خانہ کعبہ کے ماڈل کا حامل تحفہ بھی بیچ دیا اور یہ جھوٹ بولا کہ پانچ کروڑ میں اسلام آباد میں بیچا، اس حوالہ سے جعلسازی کی گئی، اس کی رسید جعلی نکلی اور ثابت ہوگیا کہ دبئی میں بیچا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا ہم نے قوم کو ایک کھیل تماشا بنا کر آگے لے کر چلنا ہے، کیا اداروں پر اپنے آپ کو حاوی کرنا ہے یا قانون کی حکمرانی اور ملک کے مسائل کا حل تلا ش کرنا ہے، یہ چبھتے ہوئے سوالات ہیں جن کا قوم کو جواب چاہئے، جب لوگوں نے یکطرفہ فیصلے کئے، عدل کی دھجیاں اڑائی گئیں، اگر اس کا احتساب نہیں ہو گا
یہ ملک جو عظیم قربانیوں سے معرض وجود میں آیا ہے اس کا مزید نقصان کرتے چلے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب عدم اعتماد کا عمل جاری تھا تو اس وقت صدر اور سپیکر کی جانب سے آئین شکنی کی کیا ضرورت تھی جسے سپریم کورٹ نے بحال کیا، سیاستدان کے پاس بات چیت کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہے، اگر اس ملک کو آگے بڑھنا ہے تو ہم سب کو بھلے ایک دوسرے کے چہرے پسند نہ بھی ہوں مل بیٹھنا ہو گا، ابھی سانحہ پشاور ہوا تو اس پر اجلاس بلایا جس میں پی ٹی آئی کو مدعو کیا گیا لیکن وہ نہیں آئی، کورونا کے دوران میں ان کے طلب کردہ اجلاسوں میں شریک ہواوہ اپنی بات کرکے چلے جاتے تھے، اس کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں قومی ایشوز پر بطور اپوزیشن لیڈر میں نے اجلاسوں میں شرکت کی، وہ ہمیں چور ڈاکو قرار دیتے تھے لیکن خود رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، ہمارے پارٹی کے رہنماؤں کو جو ریلیف ملا ہے وہ ترمیم شدہ احتساب قانون کے تحت نہیں ملا،
لندن میں ہمارے حق میں فیصلے ہوئے اور ہمیں کلین چٹ ملی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابات کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے ہم اس پر عمل پیرا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ زلمے خلیل زاد کو جس وقت پوری اپوزیشن کو دیوار میں چنوایا جا رہا تھا اس وقت خیال نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی پہلے بھی تھی تاہم یہ تھم چکی تھی، حالیہ عرصہ میں کے پی کے میں دوبارہ شروع ہوئی ہے، یہ کیسے آئی، یہ الگ بحث ہے، اس پر خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی غیر یقینی کا ذکر آئی ایم ایف نے نہیں کیا، آئی ایم ایف کی شرائط حکومت مکمل طور پر مان چکی ہے، سعودی عرب پاکستان کا بااعتماد ترین ملک ہے، قطر، چین یہ سارے ملک پاکستان کے برے وقت کے ساتھی ہیں، چین دنیا کی ایک بڑی معاشی اور عسکری قوت بن چکا ہے اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ ایک تاریخی کامیابی ہے، اس پر چین کو مبارکباد دیتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عوام کو آٹے اور پٹرول میں ریلیف کے حوالہ سیاللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عملی اقدامات اٹھانے کی توفیق دے۔