وہاڑی (این این آئی)پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ جس پوری قوم کو ٹھیک کرنا اور سنبھالنا ہے، ملٹری مائنڈ سیٹ کو سنبھالنا ہے اسی طرح عدلیہ کو بھی سنبھالنا اور بات کرنی ہے،بلاول جوان آدمی ہے اور ان کو غصہ بڑی جلدی آتا ہے، ہم غصہ پینے کے عادی ہیں، سیاست دانوں اور سیاسی لوگوں سے بات ہو سکتی ہے،
سیاسی ادارے، سیاسی خاندان اور سیاسی جماعتوں سے بات ہوسکتی ہے،غیر معیاری سیاسی جماعت سے کیا بات کروں گا،پیپلز پارٹی آئندہ الیکشن پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد کے پلیٹ فارم سے نہیں، تیر کے نشان پر لڑے گی۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح پوری قوم کو ٹھیک کرنا ہے اور سنبھالنا ہے، معیشت کو سنھبالنا ہے، ملٹری مائنڈ سیٹ کو سنبھالنا ہے، اسی طرح میرا خیال ہے عدلیہ کو بھی سنبھالنا ہے، ان سے بھی بات اور گفتگو کرنی ہے۔عدلیہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ بھی ہم سے ہی ہیں، وہ بھی ہم میں سے گئے ہوئے لوگ ہیں، پہلے وکیل تھے اور اب جج بن گئے ہیں۔حکومت سنبھالنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ یہ نہیں ہے کہ ہمیں پتا نہیں تھا کہ حالات کیا ہیں، ہمیں پتا تھا کہ معاشی خرابی ہو رہی ہے لیکن اس کو نہیں پتا تھا جو چلا گیا، اس کو احساس نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ بڑا آسان تھا کہ ہم دو مہینے انتظار کرتے اور پھر انتخابات کراتے مگر اس نے کچھ کام ایسے کرنے تھے، جس سے ہمیں انہیں روکنا تھا، ورنہ اگر وہ کام کرلیتا تو قوم بیچ دیتا، ہر جگہ بیچنے کے موڈ میں ہے، اس کی عادت ہے کوئی خریدار ہو، یہ تو دھرتی ہے ہم بیچ نہیں سکتے اور نہ کسی کو دے سکتے ہیں۔بلاول بھٹو کی جانب سے وزارتیں چھوڑنے کی دھمکی سے متعلق سوال پر سابق صدر نے کہا کہ بلاول جوان آدمی ہے اور ان کو غصہ بڑی جلدی آتا ہے، ہم غصہ پینے کے عادی ہیں،
وہ ایسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتا بلکہ کہتا ہے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا تو پیسے کہاں ہے، یا تو کرتے نہیں، اب کیا ہے تو آپ کیوں نہیں دے رہے ہیں۔عمران خان سے مفاہمت کے سوال پر آصف زرداری نے کہا کہ سیاست دانوں اور سیاسی لوگوں سے بات ہو سکتی ہے، سیاسی ادارے، سیاسی خاندان اور سیاسی جماعتوں سے بات ہوسکتی ہے لیکن یہ غیر معیاری سیاسی جماعت سے کیا بات کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تو خود کہتا ہے میں یوٹرن کرتا ہوں اور یوٹرن کرنا میری خصلت ہے تو ایک سیاسی آدمی زبان دے دیتا ہے تو پھر یوٹرن کیسے ہوگا، یہ کہتا ہے یوٹرن اچھا ہوتا ہے، اگر ہٹلر کرتا تو یہ ہوتا، نپولین کرتا وہ ہوتا، جس نے نپولین اور ہٹلر پر ایک کتاب پڑھی ہوتی ہے وہ ایسی باتیں کرتا ہے۔عمران خان کو گرفتار کرنے سے روکنے کے تاثر پر انہوں نے کہا کہ یہ کام وزیر داخلہ کا ہے،
اس میں مداخلت کیوں کروں، یہ وزیر داخلہ کا کام ہے، وہ مجھ سے کیوں پوچھیں گے، جو کرنا ہوگا وہ کرلیں گے۔پنجاب میں مسلم لیگ (ن)کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے سابق صدر نے کہا کہ یہ وقت اور حالات پر منحصر کرتا ہے، حالات پر سیاست ہوتی ہے، سیاست ناممکنات پر نہیں بلکہ ممکنات پر ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ میری سوچ کہتی ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گی جبکہ مردم شماری پر سندھ کو تحفظات ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کا اپنا موقف ہے اور ہمارا اپنا لیکن وہ اکثریتی پارٹی ہیں،
اس لیے ہم ان کے ساتھ چلتے ہیں، ہم پی ڈی ایم کا نہیں بلکہ حکومت کا حصہ ہیں، اسی لیے فاروق نائیک نے عدالت میں درخواست دی ہمیں بھی سنا جائے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ راجن پور کا الیکشن مقبولیت پر نہیں جیتا گیا بلکہ مہنگائی کی وجہ سے ہوا ہے اور حد تو یہ ہے کہ دال بھی خراب آتی ہے، دال میں ملاوٹ نہیں ہوتی تھی لیکن اب دال میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے۔آصف زرداری نے ملک کے دیوالیہ ہونے سے متعلق سوال پر کہا کہ ہم ایک ملک ہیں، کوئی پبلک لمیٹڈ کمپنی نہیں ہیں، جاپان 10 دفعہ دیوالیہ ہوا لیکن واپس آیا، امریکا دیوالیہ ہوا پھر بحال ہوا، کبھی سنتے ہیں کہ دبئی کی قیمتیں بالکل گر گئیں پھر بحال ہوا تو ملک اس طرح نہیں چلتے کہ پبلک لمیٹڈ کمپنی کی طرح ہمارے حصص کمزور ہوئے تو ملک ختم ہوگیا۔