اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) شہباز شریف حکومت نے قومی کفایت شعاری کمیٹی کی جانب سے ججوں، ارکان پارلیمنٹ اور بیوروکریٹس کے حوالے سے تجویز کیے گئے کچھ بڑے اقدامات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ کمیٹی کی جانب سے تجویز کردہ کئی دیگر اقدامات پر عمل کے حوالے سے گزشتہ ہفتے اعلان کیا گیا تھا۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق
قومی کفایت شعاری کمیٹی نے تجویز پیش کی تھی کہ بہر صورت پنشن کو پانچ لاکھ روپے تک محدود کر دیا جائے۔ اس تجویز کا بنیادی مقصد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں کی پنشن کو کم کرنا تھا، تاہم گزشتہ ہفتے جو اعلانات کیے گئے ان میں ججوں کی پنشن کے متعلق کوئی اعلان شامل نہیں تھا۔ اس کی بجائے وزیراعظم اور کابینہ ارکان نے یہ معاملہ چیف جسٹس پاکستان پرچھوڑ دیا کہ وہ اپنے ادارے میں کفایت شعاری کے اقدامات خود کریں۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ان کی کابینہ کا کوئی رکن تنخواہ نہیں لے گا اور یوٹیلیٹی کے بل اپنی جیب سے ادا کرے گا۔ تاہم، کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ کابینہ کی تعداد کو 30؍ تک محدود کیا جائے۔ کمیٹی نے ارکان پارلیمنٹ (بشمول ارکان قومی اسمبلی، ارکان صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز) کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں 15؍ فیصد کٹوتی کی تجویز دی تھی لیکن کابینہ نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اسی طرح کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ کسی بھی عہدے، ادارے یا کیڈر کیلئے مخصوص الاؤنس میں جون 2024ء تک کیلئے 25 فیصد کٹوتی کی جائے۔
کمیٹی نے واضح کیا تھا کہ یہ کٹوتی ہاؤس رینٹ، میڈیکل اور کنونس الاؤنس پر لاگو نہیں ہوگی۔ تاہم، کابینہ نے اس تجویز پر بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، عدالتوں کے جوڈیشل افسران اور باوردی افسران کی گاڑیاں، معاون اسٹاف اور یوٹیلیٹی سہولتیں واپس لی جائیں گی لیکن یہاں بھی کابینہ نے اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ 1985ء سے جاری وہ نظام ختم کیا جائے جس کے تحت عوامی نمائندوں (ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز) کو ترقیاتی منصوبے دیے جاتے ہیں اور اس کی بجائے سیکٹرز کی بنیاد پر ترقی کی حکمت عملی مرتب کی جائے کیونکہ توقع ہے کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں اخراجات کا معیار بہتر ہوگا۔ کابینہ نے اس تجویز کی بھی منظوری نہیں دی۔
تجویز دی گئی تھی کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ملازمین کیلئے مفت بجلی کی سہولت بند کرکے اسے مونیٹائیز کیا جائے لیکن اس کی بھی منظوری نہیں دی گئی۔ کابینہ نے سرکاری ملکیتی کمپنیوں (اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز) کے حوالے سے بھی پیش کردہ تجاویز زکو نظر انداز کر دیا۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ کاروباری یا تجارتی سرگرمیاں حکومت کا کام نہین لہٰذا سرکاری ملکیتی کمپنیوں کو دیگر انتظامات کی طرف منتقل کیا جائے۔
ان اداروں کی گورننس بہتر کی جائے اور قانون لایا جائے، ان اداروں کو دی جانے والی سبسڈیاں بند کی جائیں جن سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ حکومت نے یہ تجویز بھی نظر انداز کر دی کہ پی ایس ڈی پی میں پانی، توانائی، موسمیاتی تبدیلی اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے سوا کوئی بھی نیا گرین فیلڈ پروجیکٹ شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس طرح کی تجاویز آئندہ بجٹ میں شامل کیے جانے کا امکان ہے۔
یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ جاری اور منظور شدہ منصوبوں پر نظرثانی کرکے صرف انتہائی اہمیت کے حامل منصوبوں کو جاری رکھا جائے۔ کفایت شعاری کیلئے تجویز کردہ اقدامات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ دفاعی ادارے اور عدلیہ کیلئے بھی تھے۔ اگر ان پر عمل ہو تو ان سے وسط مدتی اور طویل مدتی عرصہ کیلئے ایک ہزار ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔