اتوار‬‮ ، 23 فروری‬‮ 2025 

کون سے 4ججز نے کیس سننے سے انکار کردیا؟ نام سامنے آگئے

datetime 27  فروری‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم بھی جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔سپریم کورٹ نے پنجاب، خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری

کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔حکم نامہ 9 رکنی لارجر بینچ نے جاری کیا، سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ تحلیل ہوگیا، بینچ کی تشکیل نو کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیجوا دیا گیا۔23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے، چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پرطے کیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ازسرنو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ لکھا کہ دو سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے تحریری حکم نامے میں جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ لکھا ہے جس میں انہوںنے کہاکہ میں نے چیف جسٹس پاکستان کا آرڈر پڑھ لیا ہے۔

چیف جسٹس کے اوپن کورٹ میں دیے گئے آرڈر کے ساتھ چلنا ممکن نہیں، اس عدالت کی کارروائی کے ساتھ آگے بڑھنا ممکن نہیں، ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جاسکتا، صوبائی اسمبلیاں توڑنیکی آئینی و قانونی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟

کیا اسمبلیاں آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے توڑنا آئینی خلاف ورزی ہے؟ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پرسوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت دیکھنا ناگزیر ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے جو یہ ہیں، کیا صوبائی اسمبلی توڑنیکی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟ کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مستردکیا جاسکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ازبکستان (مجموعی طور پر)


ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی…

بخارا کا آدھا چاند

رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…

بے ایمان لوگ

جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن…

صرف 12 لوگ

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…