انقرہ(این این آئی)ترکیہ اور شام میں گزشتہ روز آنے والے تباہ کن سلسلہ وار زلزلوں سے زمین بوس ہوجانے والی عمارتوں کے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کا عمل شدید سرد موسم کے باوجود جاری رہا ،ہلاکتوں کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ترکیہ کی ڈیزاسٹر میجنمنٹ اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ اتھارٹی (اے ایف اے ڈی) نے بتایا کہ اموات کی تعداد 3 ہزار 419 ہوگئی ہے ،
صدر طیب اردوان نے بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد 3 ہزار 549 ہوچکی ہے۔اتھارٹی نے بتایا کہ زلزلے کے بعد اب تک 285 آفٹر شاکس آچکے ہیں، جس کے نتیجے میں 5 ہزار 775 عمارتیں تباہ ہوئی ،زخمیوں کی تعداد 285 ہے۔ترکی کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی نے کہا کہ 13 ہزار سرچ اینڈ ریسکیو اہکار تعینات کیے گئے ہیں اور متاثرہ علاقوں میں 41 ہزار خیمے، ایک ہزار بستر اور 3 لاکھ کمبل روانہ کیے جاچکے ہیں۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے جنوبی ترکی میں بدترین زلزلے سے متاثرین ہونے والے 10 صوبوں کے مذکورہ علاقوں میں 3 ماہ کے لیے ہنگامی صورت حال نافذ کردی ہے۔انہوں نے کہا کہ 70 ممالک نے تلاش اور امدادی کارروائیوں میں مدد کی پیش کش کی ہے اور ترکیہ نے سیاحتی مرکز انتالیہ میں زلزلے سے متاثرہ افراد کے لیے عارضی طور پر ہوٹلز کھولنے کا منصوبہ بنایا ہے۔انہوںنے کہاکہ ترکیہ میں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 3 ہزار 549 ہوچکی ہے۔شام کی حکومت اور ریسکیو سروس کے مطاق گیارہ سال سے جاری جنگ سے متاثرہ ملک میں اب تک 1500 ہلاکتیں رپورٹ ہوچکی ہیں۔جنوب مشرقی ترکیہ میں قہر مان مرعش کے شہر میں عینی شاہد زلزلے سے ہونے والی تباہی کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔23 سالہ صحافی میلیسا سلمان نے کہا کہ ہمیں لگا قیامت آگئی، ایسی صورتحال ہم نے پہلی مرتبہ دیکھی ہے۔پیر کے روز آنے والے زلزلے سے صرف ترکی میں اب تک 16 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ہلاکتوں میں بے تحاشہ اضافے کا خدشہ ہے اور عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق اس بدترین تباہی کے نتیجے میں اموات کی تعداد 20 ہزار ہوسکتی ہے۔
غازی انتیپ جہاں شام میں ایک دہائی طویل جنگ سے پناہ کے لیے ترکیہ آنے والے ہزاروں افراد قیام پذیر تھے، وہاں ریسکیو ورکرز چیختے اور روتے ہوئے ملبے کو ہٹانے میں مصروف تھے کہ یکایک ایک اور عمارت منہدم ہوگئی۔ابتدائی زلزلہ اتنا شدید تھا کہ اسے گرین لینڈ جتنا دور محسوس کیا گیا
اور اس کے اثر نے عالمی ردعمل کو جنم دیا ہے۔یوکرین سے لے کر نیوزی لینڈ تک درجنوں ممالک نے امداد بھیجنے کا عزم ظاہر کیا ہے تاہم شدید سرد موسم اور نقطہ انجماد نے کارروائیوں کو سست کردیا ہے۔ انتہائی سرد موسم کے باوجود خوف میں جکڑے رہائشیوں نے رات سڑک پر گزاری اور گرمی کے لیے آگ کے الاؤ روشن کیے۔ایک رہائشی نے بتایا کہ میرا جاننے والا ایک خاندان ملبے تلے دبا ہوا ہے،
صبح 11 بجے تک میری دوست فون کا جواب دے رہی تھی تاہم اس کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، وہ بھی ملبے کے نیچے ہے۔ایک 55 سالہ رہائشی نے بتایا کہ ہم گھر نہیں جاسکتے، ہر کوئی خوفزدہ ہے۔سب سے زیادہ تباہی غازی انتیپ اور قہر مابین کے درمیان زلزلے کے مرکز پر ہوئیں جہاں پورا شہر ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا۔