اسلام آباد ( آن لائن)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے جمعرات کوہونے والے اجلاس میں ملک کے دیوالیہ ہونے کے معاملہ پر حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے آگئے،سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ملک 75 ہزار دفعہ ڈیفالٹ ہوچکا ہے، ایل سیز کا نہ کھلنا ڈیفالٹ ہی ہے،اس وقت بینکوں سے ضروری اشیاء کی درآمد کی ایل سیز نہیں کھل رہی۔
جس پر وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ڈیفالٹ اس وقت ہورہا تھا جب ہم نے حکومت سنبھالی، ہم ملک کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دینگے ،ڈیفالٹ اس وقت ہوتا ہے کہ جب آپ اپنی بیرونی ادائیگیاں نہیں کرتے، آج پاکستان اپنی بیرونی ادائیگیاں کررہا ہے کسی کی ایل سی نہیں کھل رہی وہ کہہ رہا ہے کہ ڈیفالٹ ہوگیا۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا ،ایسوسی ایشن کی عدم حاضری پر کمیٹی نے ایجنڈا موخر کردیا گیاجبکہ ضم شدہ اضلاع میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز کی استثنیٰ کا ایجنڈا زیر غور کیا گیا،مالاکنڈ چیمبر آف کامرس نے بتایا کہ وزیر مملکت خزانہ نے ہم سے ملنے کا وعدہ کیا تھا ملاقات نہیں ہوسکی،مالاکنڈ چیمبر کی جانب سے وزیر مملکت سے رابطہ کیا گیا لیکن وقت نہیں دیا گیا۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزیر مملکت نے خود کہا تھا کہ ملاقات کرکے معاملہ حل کریں گے،وزارت خزانہ کے افسران یہ ملاقات کرائیں۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ملاقات میں چیئرمین ایف بی آر کو بھی ہونا چاہیے،کمیٹی نے اگلے ہفتے کو مالاکنڈ چیمبر سے ایف بی آر اور وزیر مملکت سے بات کرنے کی ہدایت کردی۔ایکسپورٹ اینڈ امپورٹ بینک کے صدر نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پیپرا کی جانب سے کچھ خریداری پر پیپرا قوانین عائد کئے گئے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس کی کوئی دستاویز ہے جس پر ہم بات کر سکیں کیونکہ ہمارے پاس دستاویز نہیں،کمیٹی نے ایگزم بینک کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا اور اگلے اجلاس میں پیپرا کو طلب کرلیا، کمیٹی نے وزارت خزانہ کو ایگزم بینک کے دیگر مسائل کو حل کرنے کی ہدایت کردی،پاکستان فارماسیوٹیکل ایسوسی ایشن نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ ڈالر کی کمی پاکستان کیلئے ایک اور خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔
پی پی ایم اے کا کہنا تھا کہ 6 ارب ڈالر کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری اس وقت مشکلات کا شکار ہے،حکومت نے مسائل حل نہ کئے تو اگلے ماہ فارما انڈسٹری بند ہو جائے گی، فارما انڈسٹری کی برآمدات اگلے ماہ زیرو ہوجائیں گی اور کام کرنے والے بے روزگار ہو جائیں گے،ہم 95 فیصد خام مال درآمد کرتے ہیں، مریضوں کو ادویات نہیں ملے گی تو مسائل میں اضافہ ہوگا۔
فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھل رہے ہیں، پی پی ایم اے نے مزید بتایا کہ وزیر خزانہ سیاسی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں صنعتوں کے مسائل حل نہیں کئے جارہے ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ہمیں فہرست دیں ہم ترجیحی بنیادوں پر ایل سیز کھولیں گے، جو بھی خام مال منگوایا جاتا ہے وہ اہم ہے بینک بھی ڈالرز نہیں دیتے۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ کم رکھ کر ہم کیا بتانا چاہتے ہیں، ہماری ترسیلات زر ڈالر کے ریٹ کی کمی کی وجہ سے کم ہورہی ہے،شرح سود اور مہنگائی کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے،میں سیاسی باتیں نہیں کررہا بزنس کمیونٹی جو میرا حلقہ میں ان کی بات کررہا ہوں۔وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اس وقت غیر معمولی مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔
اس وقت عام حالات کی طرح بات کرنا درست نہیں ہے، ہر کوئی یہاں اپنی کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کررہا ہے، ملک کے حالات کو درست کرنا ہم سب سے کی ذمہ داری ہے، جب ہم حکومت میں آئے تو تاریخی جاری خسارہ تھا، حکومت نے بینکوں کو بتا دیا ہے کونسی اشیاء درآمد کرنے کیلئے ڈالرز دینے ہیں، حکومت ڈالرز ملک سے باہر لیجانے کے نظام کی نگرانی کررہی ہے۔
معیشت کو درست کرنے کیلئے ہمارے پاس پلان موجود ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت ہورہی ہے کثیر الجہتی قرض کے حصول کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں، حکومت کسی کی دوائی ختم نہیں کررہی اور ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے،معاشرے میں افراتفری نہ پھیلائی جائے۔اس پر سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ کرائسز منیجمنٹ کس کی ذمہ داری تھی۔
حکومت کی ذمہ داری ہے یا بزنس کمیونٹی کی ذمہ داری ہے،اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو بلا کر کہا کہ 60 فیصد کٹ لگایا جائے، ڈیفنس،گندم، کھاد اور تیل کی درآمد کی اجازت دی ہے۔بعد ازاں اجلاس کے بعد وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ایماء پر حکومت کو سخت فیصلے کرنے ہونگے۔
ملکی معیشت کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر ہے، حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی جلد بحالی چاہتی ہے،حکومت کی خواہش ہے عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے،حکومت کی کوشش ہے صاحب ثروت لوگوں پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے، آئی ایم ایف کے بہت سے تحفظات دور کر دیئے گئے ہیں ،انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے آج بھی اجلاس ہوگا، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے سخت فیصلے کرنے پڑیں گے،تمام طبقوں کو بوجھ برداشت کرنا پڑے گا،حکومت نے آرڈیننس میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کتنا ٹیکس لگایا جائے گا۔