اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 31 دسمبر آج اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم جاری کر دیا۔ محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کل 31 دسمبر کو کرانے کا حکم جاری کر دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن 101 یونین کونسلز پر 31 دسمبر ہی کو الیکشن کرائے۔
اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی دائر درخواستوں پر کیس کی سماعت جسٹس ارباب محمد طاہر نے کی دوران سماعت عدالت نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت اتنی نااہل ہو چْکی ہے کہ پیٹیشن کا جواب جمع نہ کروا سکے وفاقی حکومت کے فیصلے سے عدالت کو مایوسی ہوئی پی ٹی آئی کے علی نواز اعوان کے وکیل سردار تیمور اسلم جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ڈی جی الیکشن کمیشن دیگر حکام کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے الیکشن کمیشن اور وزارت قانون چار ماہ میں الیکشن پر رضامند وزیر داخلہ نے مشاورت کا وقت مانگ لیا عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن حکام اٹارنی جنرل کے پاس گئے الیکشن کمیشن نے عدالت کو اگاہ کیا کہ اٹارنی جنرل نے وزیر قانون سے ٹیلی فون پر رابطہ کیاوزیر قانون نے ابتدائی طور پر چھ ماہ میں الیکشن کا کہا ہے الیکشن کمیشن نے 120 دن کے اندر انتخابات پر اصرار کیاوزیر قانون نے بعد میں چار ماہ کے اندر انتخابات پر رضا مندی ظاہر کر دی اٹارنی جنرل نے وزارت داخلہ حکام سے بھی رابطہ کیاوزیر داخلہ نے معاملے پردن دو بجے میٹنگ رکھی ہے وزیر داخلہ کی جانب سے حکام نے جواب سے آگاہ کیا بتایا کہ وزیرِداخلہ اکیلے وعدہ نہیں کر سکتے وفاقی حکومت سے مشاورت ضروری ہے اس معاملے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب بھی عدالت میں پیش کیا گیا
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن شیڈول کسی عدالت کے سامنے چیلنج ہوا؟اگر چیلنج نہیں ہوا تو الیکشن شیڈول تو ابھی بھی موجود ہے جس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ نہیں بلدیاتی انتخابات کو موخر کر دیا گیا تھا پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سردار تیمور اسلم نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اپنا بوجھ عدالت پر ڈالنے کی کوشش کی ہے
عدالت نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات موخر کرنے کا کبھی نہیں کہا تھاالیکشن کمیشن نے مجوزہ قانون سازی کا سہارا لیا صدر کے دستخط نہ ہونے کے باعث اسے قانون سازی نہیں بلکہ مجوزہ بل ہی کہا جائے گا عدالت نے استفسار کیا کہ اگر ہم آپ کی رٹ پٹیشن منظور کریں تو کیا الیکشن کمیشن انتخابات کرا سکتا ہے؟جس پر سردار تیمور اسلم نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن خود کہہ چکا کہ تمام تیاری مکمل اور صرف سامان کی ترسیل باقی ہے
الیکشن کمیشن بے شک ایک ہفتے بعد انتخابات کرا لے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن حکام کی آج میٹنگ ہے وقت کی کمی کے باعث پیراوائز کمنٹس داخل نہیں کرا سکے جس پر عدالت نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت اتنی نااہل ہو گئی ہے کہ پٹیشن کا جواب داخل نہ کر سکے؟ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اگر جواب تیار کر بھی لیں تو وزارت قانون سے اس کی منظوری کے بعد داخل ہوتا ہے
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وجہ تھی کہ الیکشن سے 12 دن قبل یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا؟آپ اس کی وجہ ہمیں بتا دیں عدالت کے سامنے بلدیاتی انتخابات کرانے کی یقین دہانی پر کیا کہیں گے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ وفاقی حکومت کی صوابدید ہے کہ وہ اپنی پاور ایکسرسائز کرے اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ یہ اختیار سال 2022 میں کتنی بار استعمال کیا گیا؟جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ اختیار اس سال دو مرتبہ استعمال ہوا
اس موقع پر عدالت نے کہا کہ جون میں پہلی مرتبہ یہ اختیار تو 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوا تھا جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 2017 کے بعد آبادی میں اضافہ ہوا، اسی لیے یونین کونسلز کی تعداد مزید بڑھائی گئی اب قانون سازی ہو گئی جس میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوا پہلے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب اس الیکشن کے ایک دو ماہ بعد ہی ہونا تھااگر الیکشن کے بعد نئی قانون سازی ہوتی تو میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب پانچ سال کے لیے رک جاتا
ڈی جی الیکشن کمیشن نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ 30 جون کے بعد سے آپ نے کیا کیا پراسیس کیا؟وہ بتا دیں جس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ اکتیس دسمبر کے لیے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیابیلٹ پیپر کی پرنٹنگ اور سٹاف کی ٹریننگ مکمل ہو چکی ہے عدالت نے استفسار کیا کہ سب سے دور پولنگ سٹیشن کا آپ کے آفس سے کتنا فاصلہ ہے؟کیا آپ فوری الیکشن نہیں کرا سکتے؟
جس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ سات سے دس دنوں میں الیکشن کرایا جا سکتا ہیبیلٹ پیپرز کی ترسیل صرف الیکشن سے دو دن پہلے کی جاتی ہیسیکورٹی انتظامات کا بھی کہنا ہوتا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ اسلام آباد میں تو ویسے بھی سیکورٹی انتظامات ہیں ہم وفاق کے رویے سے بہت disappoint ہوئے کہ آپ نے جواب بھی داخل نہیں کرایااگر الیکشن نہیں ہوتے تو پرنٹنگ ہونے والا سامان ضائع ہو جائے گا؟ اس کا کون ذمہ دار ہو گا؟ جس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ جس نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔