تہران(این این آئی)ایرانی حکومت نے بین الاقوامی انتباہات کے باوجود دوسرے احتجاجی کارکن کو بھی پھانسی دیدی۔ تقریبا تین ماہ سے جاری احتجاجی تحریک میں شریک پہلے احتجاجی کارکن محسن شکاری کو 8 دسمبر کو پھانسی دی گئی تھی۔محسن شکاری کی سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد بین الاقوامی برادری کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا اور
ایران کو ایسی سزاں پر خبردار کیا گیا تھا۔ایرانی عدلیہ کی ویب سائٹ نے کہا کہ مجید رضا رہناورد کو مشہد شہر میں اس وقت پھانسی دی گئی جب ان پر سکیورٹی فورسز کے دو ارکان کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا۔ مجید پرہراساں کرنیکا الزام لگایا گیا تھا۔ایجنسی نے کہا کہ مجید کے خلاف سزائے موت 29 نومبر کو اس وقت جاری کی گئی جب اس نے چاقو سے سکیورٹی فورسز کے دو ارکان کو ہلاک اور چار کو زخمی کر دیا۔مجید رضا رہناورد کو مشہد شہر میں سرعام پھانسی دی گئی۔ قتل کے الزام کے بعد ایک ماہ سے بھی کم وقت میں مجید کو پھانسی دیدی گئی جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ایرانی حکومت مظاہروں میں گرفتار افراد کے خلاف جاری موت کی سزاں پر عملدرآمد میں تیزی لا رہی ہے۔ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے گروپ کی خبر رساں ایجنسی ھارانانے خبر دی تھی کہ مجید رہناورد کو اپنے دفاع کا موقع نہیں دیا گیا اور پسند کے وکیل کی مدد کے بغیر ہی اسے سزا سنا دی گئی ۔
ایرانی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس وقت ملک میں جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران گرفتار افراد میں سے سے سزائے موت پانے والوں کی تعداد کم از کم 11 تک پہنچ گئی ہے۔قبل ازیں ایران میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے جاوید رحمان نے مظاہرین پر بڑھتے ہوئے جبر پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ نے مظاہرین کے خلاف سزائے موت کی مہم شروع کردی ۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اتوار کو خبردار کیا تھا کہ مظاہروں کی وجہ سے بہت سے ایرانیوں کو پھانسی کا خطرہ ہے۔ احتجاجی تحریک کے پہلے شریک کو پھانسی دینے کے بعد بین الاقوامی رد عمل اور شدید مذمت نے تہران حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔پہلے احتجاجی کارکن محسن شکاری کی سزائے موت پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا کہ اس کے مقدمے کا طریقہ کار دھوکہ دہی پر مبنی تھا اور اس فیصلہ میں بلاجواز جلد بازی کی گئی تھی۔نیو یارک میں ہیڈ آفس رکھنے والی تنظیم سینٹر فار ہیومن رائٹس کے ایران میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہادی قائمی نے کہا کہ جب تک غیر ملکی حکومتیں ایران پر سفارتی اور اقتصادی دبا کو نمایاں طور پر نہیں بڑھاتی دنیا اس قتل عام کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتی رہے گی۔