اسلام آباد(این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ آدھی سے زیادہ زندگی آمریت میں گزر گئی، سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس تقریب منعقد ہوئی، جس میں اسلام آباد بار کونسل،
ہائی کورٹ بار، وکلا کی بڑی تعداد سمیت ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد، اٹارنی جنرل آفس کے افسران بھی تقریب میں موجود تھے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ، نامزد چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگری، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی ریفرنس تقریب میں شامل تھیں۔ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ میں کوئی کریڈٹ نہیں لینا چاہتا، ساتھی ججز اور متحرک بار کے بغیر کچھ ممکن نہ تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ دیگر ہائی کورٹس کی طرح نہیں، اس کا ایک الگ اسٹیٹس ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ صرف ایک علاقہ کی ہائی کورٹ نہیں، فیڈریشن کی نمائندگی کرتی ہے، وکلا کے حوالے سے جس واقعے کی بات کی گئی، اس میں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، ہم نے اپنے فیصلوں میں بار بار دہرایا ہے کہ قانون کی حکمرانی نہیں، یہ بھی فیصلوں میں لکھا کہ قانون صرف اشرافیہ کے لیے ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں اور پارلیمنٹ کو مضبوط کریں، عدلیہ بھی اختیارات کی تقسیم کے اصول کو مدنظر رکھنے کی پابند ہے، ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہماری آدھی سے زیادہ زندگی آمریت میں گزر گئی، یہ ہمارا المیہ ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی،
ہمارا ایک مخصوص کردار ہے اور ہم صرف فیصلہ دے سکتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ سویلین بالادستی اور آئین کی بالادستی کا سوال ہو، تو اس کا جواب نفی میں ہے، آئین کی عمل داری اسی وقت ہو سکتی ہے جب مائنڈ سیٹ تبدیل ہو، سیاسی لیڈرشپ آئین کی عمل داری کو مضبوط کر سکتی ہے، ہمارے ادارے کی جوابدہی پبلک اسکروٹنی کے ساتھ ہے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد بار اور بار کے ہر ممبر کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ہائی کورٹ رپورٹرز نے اپنے آپ کو پروفیشنل رپورٹر ثابت کیا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے فل کورٹ ریفرنس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سپریم کورٹ میں بطور جج نامزدگی پر فیئر ویل کے لیے یہاں جمع ہیں۔انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس صفدر شاہ کے داماد ہیں،
جسٹس صفدر سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کو سزا سنانے والے بینچ کا حصہ تھے اور اختلافی نوٹ لکھا تھا، جسٹس صفدر شاہ کو ذوالفقار بھٹو کی سزا کے فیصلے سے اختلاف کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔منور اقبال دوگل نے کہا کہ 28 نومبر 2018 کو جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس کا حلف اٹھایا تھا، اور لینڈ مارک فیصلے کیے۔انہوںنے کہاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جانوروں کے حقوق، لاپتا افراد کے حوالے سے تاریخی فیصلے تحریر کیے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے فل کورٹ ریفرنس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی عدالت میں بھی چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا گیا، آزادی اظہار رائے اور صحافیوں کے بنیادی حقوق سمیت لاپتا افراد سے متعلق اہم فیصلے دیے۔انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس نے اپنے فیصلوں پر تنقید کو بھی خوشدلی سے قبول کیا اور توہین عدالت کا اختیار استعمال نہیں کہا۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شعیب شاہین نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کیا۔
اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین قمر سبزواری نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کا جج نامزد ہونے پر مبارکباد دی اور ہائی کورٹ حملہ کیس میں ملوث وکلا کو معاف کرنے کی استدعا کی۔ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس عامر فاروق نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہا کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکلا تحریک میں اہم کردار ادا کیا ہے، انہوں نے انسانی حقوق کے معاملے پر خصوصی توجہ دی، جیل اصلاحات کے لیے سینٹرل جیل کا دورہ کیا۔