اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کی قومی احتساب بیورو (نیب)کے قانون میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے ہیں کہ نیب ترامیم سے منظم کرپشن کو فروغ ملے گا۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی،
عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث نے پانچویں روز بھی دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کابینہ اور ورکنگ ڈویلپمنٹ پارٹیز کے فیصلے بھی نیب دائرہ اختیار سے نکال دئیے گئے ہیں جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کمیٹیوں اور کابینہ میں فیصلے مشترکہ ہوتے ہیں، مشترکہ فیصلوں پر کیا پوری کابینہ اور کمیٹی کو ملزم بنایا جائے گا؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پوری کابینہ یا کمیٹی ملزم بنے گی تو فیصلے کون کریگا؟ ہر کام پارلیمان کرنے لگی تو فیصلہ سازی کا عمل سست روی کا شکار ہوجائیگا، ایل این جی معاہدے کے حقائق دیکھے بغیر کیس بنایا گیا تھا، ایل این جی سطح کے معاہدے حکومتی لیول پر ہوتے ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ کئی بیوروکریٹ ریفرنس میں بری ہوئے تاہم انہوں نے جیلیں کاٹیں، بعض اوقات حالات بیوروکریسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتے، عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حالیہ نیب ترامیم انسداد کرپشن کے عالمی کنونشن کے بھی خلاف ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ آمدن سے زائد اثاثے پوری دنیا میں جرم تصور ہوتے ہیں، عالمی معیار اور مقامی قانون کے تناظر میں نیب ترامیم کا جائزہ لیں گے۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب سے بچ نکلنے والے کسی اور قانون کی زد میں آسکتے ہیں؟ جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کیلئے کوئی اور قانون موجود نہیں ہے، نیب ترامیم کے بعد پچاس کروڑ سے زائد کی کرپشن ثابت کرنا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ نیب ترامیم سے منظم کرپشن کو فروغ ملے گا،
ترمیم سے اجازت دی گئی ہے کہ وہ مالی فائدے لیں جو نیب قانون کے زمرے میں نہ آئیں۔وکیل خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ ترمیم کے بعد مالی فائدہ ثابت ہونے پر ہی کارروائی ہوسکے گی،اختیارات کے ناجائز استعمال کیلئے عوامی عہدیدار کا براہ راست فائدہ لینا ثابت کرنا ہوگا، عوامی عہدیدار کے فرنٹ مین اور بچوں کے مالی فائدے پر بھی کیس نہیں بنے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترمیم شدہ قانون موجودہ حالت میں 1999 میں آتا تو چیلنج ہوتا؟
خواجہ حارث نے کہا کہ قانون پر عملدرآمد میں نقائص سامنے آنے پر ہی اسے چیلنج کیا جاتا ہے، مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کیلئے نیب ترامیم کی گئی ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ موجودہ حکومت کے آنے کا پہلا ٹارگٹ ہی اپنے نیب کیسز ختم کرنا تھا، کیا نیب تحقیقات پر خرچ اربوں روپے ضائع ہونے دیے جائیں؟ کیا احتساب عدالتوں کے ججز پر شک ہے کہ وہ انصاف نہیں کرتے؟سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری تھے کہ اس دوران عدالت نے مزید سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ 26 جون کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے کی گئیں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کے خلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔خیال رہے کہ رواں سال جون میں اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں تاہم صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔