راولپنڈی(این این آئی)اڈیالہ جیل میں حراست کے دوران قیدیوں پر ٹارچر اور کرپشن کا انکشاف ہوا ہے اس ضمن میں انسانی حقوق کمیشن نے رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرادی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل میں قیدی پر ٹارچر کے خلاف کیس کی سماعت کی ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال اور جیل حکام عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وزارت انسانی قیدی کی جانب سے طبی معائنے کی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی گئی۔اڈیالہ جیل کے قیدی پر جیل حکام کے ٹارچر کی بادی النظر میں تصدیق ہوگئی۔ انسانی حقوق کمیشن نے جیل حراست میں ٹارچر اور کرپشن کی نشاندہی بھی کرتے ہوئے رپورٹ پیش کردی۔عدالت نے کہا کہ پمز کے ڈاکٹر نے قیدی کا طبی معائنہ کیا ، میڈیکل رپورٹ قیدی کے والدین کی شکایت کے ٹارچر کے الزام کو سپورٹ کرتی ہے، میڈیکل آفیسر نے بتایا کہ قیدی کے نشان ٹارچر کی وجہ سے بھی ہو سکتے ہیں ، بادی النظر میں میڈیکل رپورٹ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ظاہر کرتی ہے۔عدالت نے سیکرٹری انسانی حقوق کو کل جمعہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو پیسے دیتا ہے وہ جیل میں موبائل فون بھی استعمال کرتا ہے ملاقاتیں بھی کرتا ہے ، جو قیدی غریب ہو کیا ان کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔ہائی کورٹ نے سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو تنبیہ کی کہ اگر کسی قیدی کی شکایت آئی تو عدالت بہت سیریس ایکشن لے گی۔
اب عدالت اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرائے گی۔واضح رہے کہ اڈیالہ میں 21 سالہ حوالاتی کو برہنہ کرکے بدترین تشدد کا واقعہ پیش آیا جس سے اس کی حالت انتہائی غیر ہوگئی۔ جیل میں بند شہاب حسین سے رشوت طلب کی گئی تھی۔شہاب حسین کی ماں امتیاز بی بی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ اس کا بیٹا انسداد دہشتگردی کیس میں اڈیالہ جیل میں حوالاتی ہے، 6 ستمبر کو جیل سپرنٹینڈنٹ اور عملے کے دیگر افراد نے اس کے بیٹے کو برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے شہاب کی انگلی بھی ٹوٹ گئی۔