اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)شہباز شریف بطور وزیر اعظم غیر متاثر کن، شہباز شریف کے کارکردگی نہ دکھانے پر حکمران اتحاد اور متعلقہ حلقوں میں بہت سوں کو حیرت۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق شہباز شریف، جو ماضی میں اپنی حکمرانی اور انتظامی مہارتوں کے لیے جانے جاتے تھے، پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر غیر متاثر کن ہیں۔ اگرچہ عمران خان شہباز
شریف اور ان کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنا تے رہے ہیں، حکمران اتحاد اور متعلقہ حلقوں میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو حیران ہیں کہ شہباز شریف کارکردگی کیوں نہیں دکھا رہے؟ سرکاری محکموں کی خدمات کی فراہمی،حتیٰ کہ جو دارالحکومت کے دائرہ اختیار میں بھی آتی ہیں، پہلے کی طرح مایوس کن ہے جبکہ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں ڈالر کی غیر قانونی پرواز اور ’سٹہ‘ (قیاس پر مبنی خرید) کی وجہ سے ڈالر کی شرح میں غیرمعمولی اضافے پر کوئی حکومتی چیک نہیں ہے جس سے معیشت اور مارکیٹ کے رجحان کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ان کے دور میں بیوروکریسی پر شہباز شریف کی گرفت مضبوط تھی لیکن مرکز میں بحیثیت وزیر اعظم پاکستان لگتا ہے کہ معاملات ان کے کنٹرول میں نہیں رہے۔ وفاقی حکومت کے محکموں کی سروس ڈیلیوری پہلے کی طرح مایوس کن ہے۔ ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک کے مطابق وزیر اعظم کی اب تک سب سے زیادہ توجہ معیشت رہی ہے جو دلچسپ بات یہ ہے کہ سنبھالی نہیں جارہی اور آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد بھی بہتری کی بجائے بہت سے لوگوں کو حیرت ہے کہ یہ بدتر ہو تی جارہی ہے۔
شہباز شریف حکومت کے ایک اہم معاشی ماہر سے جب آئی ایم ایف ڈیل کے باوجود ڈالر کی قیمت میں غیر متوقع اضافے کی وجوہات پر رابطہ کیا گیا تو وہ مکمل طور پر بے خبر پائے گئے کہ یہ کیوں ہو رہا ہے اور اسے کیسے روکا جائے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے حال ہی میں سابق وزیر اعظم اور پی ایم ایل این کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی کو سرکاری محکموں میں گورننس اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ عباسی اپنی اصلاحاتی حکمت عملی تیار ہونے پر وزیر اعظم کو عملدرآمد کے لیے پیش کریں گے۔ اپنے پنجاب کے تجربے کے بعد وزیراعظم نے اقتدار میں آنے کے بعد اسلام آباد میں شادیوں کے لیے ون ڈش پالیسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا لیکن یہاں بھی ایسے علاقے میں اکثر خلاف ورزیاں ہوتی ہیں جو صوبہ پنجاب کے کئی ڈویژنوں سے بھی کم ہے۔ وفاقی حکومت کے محکموں جیسے سی ڈی اے میں بھی پبلک ڈیلنگ میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔
ایک اور مثال کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ذریعہ نے کہا کہ عمران خان حکومت کی جانب سے معاشرے کی کردار سازی کے لیے بنائی گئی وفاقی اتھارٹی شہباز حکومت کے دوران پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی کے باوجود بے کار ہو گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس اتھارٹی میں تقرریاں کرنے کا وقت نہیں ہے جس کے سابق چیئرمین اور ارکان موجودہ دور حکومت میں ہونے والی نئی قانون سازی کی وجہ سے جاری نہیں رہ سکے۔ حکومت کو سب سے اہم گورنر اسٹیٹ بینک کی تقرری میں بھی کئی ہفتے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف خاص طور پر معاشی حوالے سےواقعی مشکل حالات میں وزیر اعظم بنے۔ وہ ایک درجن سے زائد سیاسی شراکت داروں پر مشتمل حکمران اتحاد کے بھی تابع ہیں۔ تاہم اس بات کی کوئی وضاحت دستیاب نہیں ہے کہ انہیں بیوروکریسی کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور حکومت کی رٹ کو یقینی بنانے، خاص طور پر ایسے معاملات میں جو ملکی معیشت کے لیے حساس ہیں کیا چیز روکتی ہے۔