اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کا مزید جسمانی ریمانڈ منظور کرنے کے مجسٹریٹ آرڈر کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی۔ آئی جی اسلام آباد،اڈیالہ جیل انتظامیہ اور ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے،
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیشن جج کے خلاف دھمکی آمیز بیان دیا گیا ،ایڈووکیٹ جنرل کا عمران خان کے بیان پر عدالت سے نوٹس لینے کی استدعا کی گئی، عدالت نے کہا کہ اس بیان کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے، عدالت نے حکم دیا کہ کیس کا تفتیشی کہاں ہے؟ کیس کا ریکارڈ لائے ہو، آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ کا کہا تھا، وہ رپورٹ کہاں ہے، شہباز گل کے وکیل سلمان بدر نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ بیان 8 اگست کو دیا اور 9 اگست کو گرفتار کرلیا گیا اور 10 اگست کو پیش کیا گیا،جس دن گرفتار کرلیا گیا اسی دن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاسکتا تھا،شہباز گل کی گرفتاری سے لیکر اب تک 10 دن گزر گئے، صغریٰ بی بی کیس میں کہا گیا کہ پولیس سے امید نہیں کی جاسکتی20 سالوں میں پاکستان کا واحد کیس ہے جس میں مجھے اور رضوان عباسی کو کھڑا ہونا پڑ رہا ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ یہ پاکستان کا واحد کیس نہیں اسلام آباد میں اتنا نہ ہو مگر لاہور میں تو ایسے کیسز ہیں جس طرح مجسٹریٹ ہاتھ سے لکھتا ہے ،ہائی کورٹ بھی پھر یہی کرے گا،میں ریمانڈ میں نہیں جا رہا ،یا اس کے لیے مجھے یہاں ٹی وی لگانا ہوگا شواہد منگوانے ہونگے ۔جس پر شہباز گل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل کو جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر جوڈیشل کردیا گیا جس ملزم کو جب جیل بھیجتے ہیں تو پہلے اسکا میڈیکل کیا جاتا ہے ،شہباز گل کو جب اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تو اس کے جسم پر ٹارچر کے نشانات تھے ،ٹارچر پاکستان میں ایک قانون بنا ہوا ہے، اس موقع پر عدالت نے سلمان بدر سے مکالمہ کیا کہ آپ کے پاس جو میڈکل رپورٹ ہیں وہ میں آپ سے نہیں لونگا،میڈیکل رپورٹ اڈیالہ کے میڈکل افسر ڈاکٹر سے لونگا ،
اس موقع پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تشدد کے اثرات صرف پانچ سے چھ دن رہتے ہیں ،میڈیکل بورڈ نے قرار دیا کہ شہباز گل کو کچھ نشانات ہیں ،شہباز گل کے پرائیویٹ پارٹس پر تشدد کیا گیا، عدالت ڈاکٹرز کو بلا کر پوچھ لے وہ شہباز گل تشدد کے عینی شاہد ہیں درجنوں مثالیں ہیں پولیس ایسے تشدد کرتی ہے جس کو ٹریس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، پولیس تشدد سے مار کر بھی کہتی ہے بندے نے خودکشی کرلی ،
بارہ دن بعد تو بڑے سے بڑا تشدد ٹھیک ہوجاتا ہے ،اس موقع پر سلمان بدر نے شہباز گل کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پڑھ کر سنائی جن جن جگہ کا نام لکھا گیا ہے اسی کے ڈائیگرامز ساتھ لیکر آیا ہوں، میڈیکل بورڈ نے ایک سیریس چیز کہی ہے کہ درخواست گزار سانس کی بیماری ہے ،جوڈیشل مجسٹریٹ نے پوچھا تھا کہ اگر ملزم بیمار ہے تو ایمبولینس اور ویل چیئر پر کیوں لائے ،
اس کیس میں بچت ہوگئی کہ یہ 302 تک نہیں پہنچاحالانکہ ایسے لوگ مر جاتے ہیں اس عدالت کے حکم کے باوجود نہ وکلاء سے ملاقات کرائی اور نہ رشتہ داروں سے ملاقات کرائی ،عدالت کو شواہد کے لیے کوئی ویڈیو نہیں دی اور کل 12 دنوں بعد ویڈیو لیک کردی ،اس موقع پر عدالت نے شہباز گل کے وکیل سلمان بدر کو مختلف عدالتی فیصلے جمع کرنے کی ہدایت کی،
اس موقع پر شہباز گل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجسٹریٹ نے خود آبزرویشن دی کہ ملزم کی کنڈیشن سیریس ہے،ایسے ہی ٹارچر پر ملزمان کی ڈیتھ ہو جاتی ہے ،مجھے وکالت نامہ دستخط کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی ،اب اس کی طبیعت بہتر ہو رہی تو کل اس کی وڈیوز لیک کی گئیں، شہباز گل کے وکیل نے میڈیا پر چلنے والی لیک وڈیوز کی درستگی کا اعتراف کر لیا،شہباز گل کے موبائل فون کی ریکوری کا کہا گیا کہ
وہ ڈرائیور کے پاس ہے ،پھر موبائل فون کی ریکوری کے لیے شہباز گل کے ریمانڈ کی کیا ضرورت ہے؟موبائل فون اور عینک ساتھ ہی ہوتی ہے، موبائل پولیس کے پاس ہے ،یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز گل سے سازش کا پتہ کرنا ہے ،شہباز گل کو عدالت نے جوڈیشل کردیا تو واپس کیوں لانا پڑا ،
کریمنل کیسز میں شواہد کو عدالت اور فریقین سے چھپایا نہیں جاسکتا،میں نے کہا کہ وہ کونسے شواہد ہیں جس کے لیے مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت ہے شواہد مانگنے پر کہا گیا کہ ہم آپ سے کچھ بھی شئیر نہیں کرسکتے ،تفتیشی کی درخواست اس معاملے پر خاموش ہے ،پولیس کی ناکامی ہے کہ گرفتاری کے وقت ان سے موبائل نہیں لیا گیا پراسیکیوشن کا کیس اگر یہ ہوتا کہ شہباز گل سے موبائل برآمد کرنا ہے تو معاملہ اور ہوتا،
پولیس نے مقدمہ درج کیا کہ شہباز گل کا موبائل ان کے ڈرائیور کے پاس ہے جج نے بھی آرڈر میں لکھا ہے کہ پرچہ میں لکھا ہے کہ موبائل کسی اور کے پاس ہے ،اس موقع پر عدالت نے شہباز گل کے وکیل کو تقاریر کے حوالے سے منع کیا ،فریڈم آف ایکسپریشن کی تعریف ہم سب غلط پڑھتے ہیں ،سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ تفتیشی کو جب لگے کہ
مزید تفتیش کی ضرورت ہے تو مجسٹریٹ کو بتانا ہوتا ہے عدالت نے استفسار کیا کہ ابھی تفتیش میں ایسا کیا بچا ہے جس پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ 90 فیصد تفتیش مکمل ہوگئی ہے ،بس کچھ اور چیزیں کرنے ہیں ہم کچھ چیزوں کو ابھی نہیں بتا سکتے اس سے ہمارا کیس خراب ہوگا، عدالت نے تفتیشی سے استفسار کیا کہ انہوں نے جو بیان دیا وہ سٹوڈیو میں بیٹھ کر دیا یا فون پر؟
جس پر تفتیشی نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل نے عمران خان کی رہائش گاہ سے لینڈ لائن پر بیان دیا ہے، شہباز گل نے جو بیان دیا تھا وہ موبائل سے پڑھ کر سنایا تھا، عدالت نے پوچھا کہ پولی گرافک ٹیسٹ اسلام آباد میں تو نہیں ہے، آپ نے کہاں سے کرنا ہے؟ جس پر تفتیشی نے عدالت کو بتایا کہ پولی گرافک ٹیسٹ لاہور میں ہے، وہاں سے کرنا ہوتا ہے، ٹرانسکرپٹ ہم نے ریکور کیا مگر باقی کچھ چیزیں بھی ریکور کرنا ہے ،
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے پولیس ڈائری میں یہ سب کچھ لکھا ہے؟اگر پندرہ دن میں تفتیش مکمل نہ ہو تو کیا اس کے بعد بھی ریمانڈ مل سکتا ہے؟جس پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ پندرہ دن سے زیادہ جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا، عدالت نے استفسار کیا کہ اگر اس کے بعد بھی تفتیش کی ضرورت ہو تو پھر جیل میں تفتیش کی جائے گی؟ شہباز گل سے اس کا موبائل فون برآمد کرنا ہے
جس پر عدالت نے کہا کہ وہ کال تو لینڈ لائن سے کی گئی تھی جس پر تفتیشی نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل نے تفتیش میں بتایا کہ وہ بیان موبائل سے پڑھ کر سنایا تھاجو ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا گیا وہ بھی برآمد کرنا ہے ۔پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ جسمانی ریمانڈ پندرہ دن کا ہوتا ہے جو مختلف مراحل میں بھی دیا جا سکتا ہے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ دوران تفتیش کوئی ملزم بیمار ہو جائے تو کیا ہو گا؟
جس پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بیمار اور زخمیوں کے لیے بھی رولز موجود ہیں، زندگی ہے تو سب کچھ ہے بیمار یا زخمی ملزم کو علاج کی سہولت فراہم کرنا ضروری ہے ،شہباز گل کا عام فون ریکور ہوا، سمارٹ فون کی ریکوری باقی ہے ،اس موقع پر جیل احکام نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کی حوالگی میں چار گھنٹے کی تاخیر ہوئی ۔
اسلام آباد کی اپنی جیل نہیں اڈیالہ جیل رکھنا پڑتا ہے ،اگر کسی ملزم کی طبیعت خراب ہو تو قریبی ہسپتال لے جایا جاتا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ اسلام آباد کا ملزم ہو تو اسے اسلام آباد کے ہسپتال میں ہی رکھا جاتا ہے ،اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے رپورٹ کچھ دیر میں جمعکردی جائے گی۔