پشاور(این این آئی)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے کہا ہے کہ مذاکرات کی باتیں ہوئی، بندوق والی مخلوق بغیر مذاکرات اور معاہدے کے قبائل میں کیسے واپس آگئی؟،
طاقتور قوتیں سمجھتی ہیں نظام ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔مرکزی مجلس عمومی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عوام غیر مسلح جبکہ دوسری طرف مسلح لوگ ہیں، جے یو آئی امن کے لئے تیار لیکن اپنا تحفظ بھی چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسی سیاسی فضا بنا دی جاتی ہے اور ایسی جماعتوں کو مسلط کردیا جاتا ہے کہ جنہیں قرآن وسنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، ایک وقت تھا جب پاکستان نے چین کو قرضہ دیا آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان مسلسل تنزل کی طرف جا رہا ہے اور طاقتور قوتیں سمجھتی ہیں کہ نظام ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے، آئی ایم ایف نے گلے سے پکڑا ہوا ہے اپنی شرائط منوانا رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ عمران خان کے بارے میں پہلے سے کہا تھا کہ بیرونی ایجنٹ ہے، امریکہ اور بھارت سے پیسے ملتے ہیں، میرا جو سخت موقف تھا، ہمارے ساتھی بھی کہتے ہیں کہ فضل الرحمان غیر ضروری سختی کر رہا ہے لیکن آج سب عیاں ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ بیرونی ایجنڈے پر کمپرومائز نہیں کیا، ریاست معاشی طور پر دیوالیہ ہوجائے تب بغاوت ہوتی ہے، ہمارے صوبوں میں وہ قوتیں موجود ہیں جو اس انتظار میں ہیں کہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔انہوں نے کہا کہ 1973سے لے کر آج تک ایک بھی اسلامی قانون سازی نہیں ہوئی،
ایسی جماعتوں کو مسلط کردیا جاتا ہے جنہیں قرآن وسنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، ایک وقت تھا جب پاکستان نے چین کو قرضہ دیا آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ طاقتور قوتیں سمجھتی ہیں نظام ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے،ہماری تنقید خیر خواہی کی بنیاد پر ہے۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف نے گلے سے پکڑا ہوا ہے اپنی شرائط منوانا رہا ہے،اس حد تک آزاد قوم ہیں 14 اگست تک جشن آزادی منا
لیتے ہیں،جشن آزادی میں منعقدہ تقریبات میں اسلامی چہرہ نہیں دکھایا جاتا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے قلیل المدت منصوبہ بندی پر نظر رکھنی ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ پارلیمنٹ میں فیصلے موجود طاقت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ عمران خان کہتا ہے مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں، صبح ایک بیان شام کو دوسرا بیان دے دیتا ہے، پنجاب ضمنی الیکشن میں کامیابی نیازی بیانیے کی مقبولیت کی دلیل نہیں۔