کراچی(این این آئی) عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا ہے کہ سیاسی مفاد کیلئے ججوں کو آپس میں لڑوایا جا رہا ہے۔ گزشتہ کل دہائیوں کی حاصل کردہ عدلیہ کی خود مختاری کو ایک بڑا دھچکا لگا جب جوڈیشل کمیشن کے دو حاضر سروس جج ممبران
قاضی فائز عیسیٰ و طارق مسعود نے وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور وکیل رکن کا ساتھ دیتے ہوئے چار ممبران، چیف جسٹس، دو حاضر سروس اور ایک ریٹائرڈ جج کے موقف کو رد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی چار خالی اسامیوں کو نامزد ججوں کے ذریعے پْر کرنے سے انکار کردیا۔ کچھ عرصے سے سیاسی حلقوں میں شور ہے کہ عدلیہ پر قیمچنے کی ضرورت ہے اور موجودہ قومی اسمبلی نے اس ضمن میں ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دیدی ہے۔ یاد رہے کہ اپنی پسند کے چیف جسٹس نامزد کرنا، عدالت عظمیٰ پر حملہ وغیرہ، پہلے ہی ہمارے کھاتے میں پڑے ہیں، جس روش کا 19ویں ترمیم کے ذریعے بمشکل ازالہ ہوا۔ نیا حربہ اب ججوں کو آپس میں لڑا کر پاکستان جوڈیشل کمیشن میں ان کی اکثریت توڑنا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کوئی پرانی بات نہیں، جس میں عدالت عظمیٰ کی اکثریت کا فیصلہ تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی رد ہوتی ہے مگر بیگم عیسیٰ جائیدادوں کی خرید کی رقوم کے ممبع، مآخذ کی تفصیل بتانے کی پابند ہوں گی۔ نظرثانی میں ججوں کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی اور متذکرہ شرط بھی حذف کرکے معاملہ مکمل طور پر ختم کر دیا گیا، لہٰذا رقوم کی تفصیلات عوامی دسترس سے باہر ہی رہیں۔ اس وقت کی حکومت نے اپنی طرف سے ایک اور نظرثانی درخواست ڈالی، جو موجودہ حکومت نے واپس لے لی ہے۔
ان حالات میں عدالتی معاملات کو سرکاری دسترس سے کیسے بچایا جائے، پھر سے مسئلہ بن کر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اسی سلسلے میں صدر کے ریفرنس پر عدالت عظمیٰ کی رائے، جو حکومت کو چند روز قبل تک قبول تھی، ق لیگ کے دس ارکان پر فیصلہ آنے کے بعد یکسر ناقبول ہوگئی ہے اور وہ آرٹیکل 63 اے پر ایک اور صدارتی ریفرینس بھیجنا چاہ رہے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کی مفاداتی ناچاقیاں طالع آزماؤں کو آئینی نظام درہم برہم کرنے کی راہ ہموار کرتی ہیں۔