اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی اخبار دی ہِل میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں امریکا میں متعین سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت ہٹانے کیلئے عدم اعتماد کا ووٹ میں امریکی سازش شامل تھی۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکا پہلے ہی کئی بین الاقوامی مسائل میں پھنسا ہوا ہے
اور امریکا کی عمران خان میں یا پھر پاکستان میں اتنی دلچسپی ہی نہیں تھی کہ وہ حکومت کی تبدیلی کیلئے کوششیں کرے۔ امریکا کے پالیسی ساز حلقوں کی پاکستان میں دلچسپی نہیں ہے اور دونوں ملکوں کے سفارت کار اسی چیز کو پلٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان اور پاکستان کی داخلی سیاست پر کچھ عرصہ سے واشنگٹن والوں کی توجہ کم ہوگئی ہے۔ افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے بعد امریکا میں بیٹھے پالیسی سازوں نے پاکستان سے اور پیچیدہ باہمی تعلقات کے معاملے پر کسی حد تک کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ یقیناً، امریکا زیادہ عرصہ تک پاکستان کو نظر انداز نہیں کر پائے گا اور پاکستانی عوام بھی چاہیں گے کہ دونوں ملکوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر بات چیت آگے بڑھانے کیلئے آنے والی حکومتوں کی دہشت گردی کی حمایت کی اسکروٹنی کی جائے لیکن عمران خان کا لب و لہجہ باہمی بات چیت کی شروعات میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ امریکی حکام بھی اس جلد بازی میں نہیں کہ عمران خان کے دعووں کو تقویت دینے کیلئے وہ جلد پاکستان کے ساتھ تعلقات کی راہ ہموار کرے۔
یہ تعلقات گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کی جانب سے طالبان کی حمایت اور عمران خان کی جانب سے سازشی نظریات پھیلانے کی وجہ سے خراب ہوئے۔ تاہم، پاکستان کی معاشی ضروریات کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسے جلد امریکا اور یورپی شراکت داروں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔
اگرچہ چین پاکستان کا ہر مشکل گھڑی کا دوست ہے لیکن اس کے باوجود امریکا اور یورپی یونین بھی پاکستان کے اہم تجارتی شراکت دار ہیں۔ پاکستان اکثر و بیشتر مغربی ممالک کے مالی اداروں سے مدد کیلئے دوڑتا ہے جن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک شامل ہیں اور وہ اقوام متحدہ میں بھی مغربی اثر رسوخ سے بچ نہیں سکتا جس کا سامنا اسے ایف اے ٹی ایف میں ہو رہا ہے جس نے 2018ء سے اسے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے معاملے پر واچ لسٹ میں رکھا ہوا ہے۔