لاہور( این این آئی)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے وزیر اعلی حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ پوری دنیا کی اسمبلیوں میں جھگڑے ہوتے ہیں لیکن جو اس دن ڈپٹی سپیکر کے ساتھ ہوا وہ افسوسناک تھا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق)کی جانب سے وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز کا انتخاب کالعدم کرانے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63اے کا اطلاق ماضی سے ہوگا ،میں نے تین عدالتی نظیریں دی ہیں، سپریم کورٹ کا مختصر حکم نامہ بھی عملدرآمد کے لیے کافی ہے۔آئین کہتا ہے جس کے پاس عددی اکثریت ہوگی وہ وزیر اعلی بنے گا، سپیکر کے فیصلوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے، عدالتیں پارلیمانی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب کے وقت سپیکر نے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کیا، اس معاملے پر اس عدالت میں پٹیشن دائر کی گئی اور پھر انٹرا کورٹ اپیل میں الیکشن کروانے کا حکم دے دیا گیا۔عدالتیں صرف اس وقت مداخلت کر سکتی ہیں جب اسپیکر کے کسی اقدام میں بدنیتی ہو۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تشریح سے قبل بھی 63 اے موجود تھا اور لاگو تھا، اب سپریم کورٹ نے واضح فیصلہ دیا کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔یوں اب بظاہر کسی کے پاس بھی عددی اکثریت موجود نہیں ہے اور آئین کے آرٹیکل 130 کے مطابق وزیر اعلی کے پاس عددی اکثریت ہونی چاہیے، چنانچہ یہ معاملہ دوبارہ وزیر اعلی کے انتخاب کی طرف ہی جائے گا۔
دوسری بار ووٹنگ میں 186 ووٹ لینے ہوں گے، اگر کوئی 186 ووٹ نہیں لے سکا تو جو زیادہ ووٹ لے گا وہ وزیر اعلی منتخب گا۔دوران سماعت چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ اسمبلی میں کل اراکین کی تعداد کتنی ہے؟۔بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ اسمبلی 371 اراکین پر مشتمل ہے، ایک سیاسی پارٹی کے اراکین اسمبلی دوسری پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں، سپریم کورٹ نے یہ روک دیا ہے۔اپنے دلائل مکمل کرتے
ہوئے تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے یہ تاریخی کیس ہے، پورا ملک اس عدالت کی طرف دیکھ رہا ہے۔مسلم لیگ (ق)کے وکیل نے دلائل میںکہا کہ آئی جی پنجاب نے اسمبلی میں پولیس داخل کی اور ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے حکم دیا تھا۔وکیل نے مزید کہا کہ عدالت نے ایسا حکم جاری نہیں کیا تھا، متعدد اراکین پولیس کی مداخلت کے باعث ووٹ نہیں ڈال سکے۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ پنجاب
اسمبلی میں جو کچھ ہوا سب نے دیکھا، بظاہر سیکرٹری اسمبلی نے اس موقع پر اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔(ق) لیگ کے وکیل نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر اپوزیشن کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے کہا کہ آپ میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے معاملے کو دوسری جانب لے جا رہے ہیں جو ڈپٹی سپیکر کے ساتھ ہوا سب نے ٹی وی پر دیکھا۔اسمبلی کے اندر لوگوں کو داخل ہونے سے روکنا سیکرٹری اسمبلی کا کام تھا، اسمبلی
میں لوٹے گئے یہ شرمناک تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پوری دنیا کی اسمبلیوں میں جھگڑے ہوتے ہیں لیکن جو اس دن ڈپٹی سپیکر کے ساتھ وہ افسوسناک تھا۔سیکرٹری اسمبلی، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے ماتحت ہے، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر سیکرٹری کے ماتحت نہیں،ہم بھی اس معاشرے میں رہتے ہیں، ٹی وی پر سب دیکھا کہ اس دن کیا ہوا۔ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ جب اسمبلی میں وزیر اعلی کے انتخاب سے قبل ریفرنس سپریم کورٹ میں زیرِ التوا تھا تو سپریم کورٹ نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کا حق سب کو ہے لیکن 63اے کے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔بعدازاں عدالت نے فریقین کے وکلا ء کو دلائل کے لیے طلب کر لیا اور درخواستوں پر سماعت 6 جون تک ملتوی کردی۔