اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان کے معاملے پر نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا اور تمام لوگوں کو کہا ہے کہ پہنچیں۔ ڈی چوک یا ریڈ ژون میں آنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اہم بات جو انہوں کی ہے اسمبلی کب تحلیل ہوگی اور دوسرا لیکشن کی تاریخ کیا ہوگی۔
لگتا یہی ہے کہ مقتدر حلقوں سے ان کے بیک ڈور رابطے ہیں کیوں کہ ڈیمانڈ میں تھوڑی بہت لچک دکھائی گئی ہے اب وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ فوری الیکشن کروائیں بلکہ وہ الیکشن کی تاریخ مانگ رہے ہیں اور ہمارے ذرائع کے مطابق تحریک انصاف اکتوبر کے آس پاس کی تاریخ پر راضی ہوجائے گی۔بالکل عمران خان کا پہلے یہی موقف رہا ہے کہ ادارے حق و باطل کی جنگ میں نیوٹرل نہیں رہ سکتے لیکن آج انہوں نے یہ بات کہی ہے ادارہ نیوٹرل رہے میرے خیال سے اس وقت انہوں نے اس تناظر میں بات کہی ہے کہ جب ان کے لوگ مختلف شہروں سے اسلام آباد پہنچیں تو اُن کو روکا نہ جائے اور اگر وہ نیوٹرل ہیں تو نیوٹرل ہی رہیں کسی کی سائیڈ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کی د و اسٹیٹجیز ہوسکتی ہیں یا تو وہ لوگوں کو آنے دے یا پھر دوسری یہ کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ لوگوں کا آنا انتشار کا باعث ہوسکتا ہے تو حکومت بذور طاقت انہیں روکنے کی کوشش کرے گی اور اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ لاء اینڈ فورسز ایجنسیز کو ہی استعمال کریں گے میرے خیال سے اس صورت میں عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ نیوٹرل رہیں۔ 2014 کے دھرنے میں تحریک انصاف کے لوگ دن کے وقت گنے چنے ہوتے تھے اور شام کے وقت اسلام آباد اور قریبی علاقوں سے لوگ آکر جوائن کرتے تھے اور جو مستقل وہاں بیٹھنے والے غالباً عوامی تحریک کے لوگ تھے گرم موسم میں لوگوں کو مستقل وہاں بیٹھا کر رکھنا ایک چیلنج ہوگا۔
اگر تحریک انصاف کے لوگ دن میں پینڈال کو چھوڑ کر چلے جائیں گے اور رات کو واپس آجائیں گے تو شاید وہ دھرنا اتنا موثر ثابت نہ ہو۔نون لیگ کا کہنا ہے کہ اگر ہم مشکل فیصلے لیں اور اس بجٹ کو پیش کریں تو اگلہ بجٹ بھی پیش کرنے دیا جائے تاکہ عوام کو ریلیف پہنچا سکیں اور سخت بجٹ دینے کے بعد الیکشن میں جانا نون لیگ کو سوٹ نہیں کرتا دوسری موقف نون لیگ فوی الیکشن کا ہے ۔ اور میرے ذرائع کے مطابق اگر عمران خان کو اکتوبر نومبر میں الیکشن کی تاریخ مل جاتی ہے تو وہ اس پر اتفاق کرلیں گے اور اسمبلی میں بھی آجائیں گے۔اسد عمر اور شاہ محمود بیان دے چکے ہیں کہ اگر الیکشن کی تاریخ آجاتی ہے تو ریفامز سمیت دوسرے ایشوز پر بات کرنے لیے تیار ہیں۔