اسلام آباد(مانیٹرنگ،این این آئی)معروف اینکر ارشد شریف نے اپنے خلاف مقدمہ پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرائی جسے سماعت کے لئے آج رات ہی مقرر کر دیا گیا ہے، انہیں رات ساڑھے گیارہ بجے عدالت طلب کر لیاگیا ہے، اس موقع پر عدالت نے آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ارشد شریف کی حاضری میں معاونت کریں۔
واضح رہے کہ پاک فوج کیخلاف ہرزہ سرائی پر اینکر پرسن ارشد شریف کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ مقدمہ تھانہ بی سیکشن پر شہری کی فریاد پر درج کروایا گیا، مقدمہ ملکی دفاعی ادارے کیخلاف ہرزہ سرائی اور نفرت پھیلانے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمہ ریاستی اداروں کیخلاف گفتگو کرنے کے تحت درج کیا گیا، لطیف آباد میں نجی ٹی وی سے منسلک اینکر پرسن ارشد شریف کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے۔طیب حسین نامی شخص نے ارشد شریف کے خلاف مقدمہ درج کروایا، اینکر پرسن ارشد شریف پر یوٹیوب پر ریاستی اداروں کے خلاف زبان استعمال کرنے کا الزام ہے، مقدمہ 131,153,505 پی پی سی کی دفعات کے تحت درج کروایا گیا۔فریادی کے مطابق ہوٹل پر دوستوں کے ساتھ یوٹیوب چینل پر پروگرام دیکھا،اطلاعات کے مطابق پولیس نے ایف آئی آر میں نام اشرف شریف درج کیا۔دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر کو آج رات ساڑھے 11 بجے طلب کرلیا۔ تحریک انصاف نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، پی ٹی آئی کے وکلا فیصل فرید، علی بخاری اور دیگر اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔ ان کے ساتھ فواد چوہدری، ذلفی بخاری، فرخ حبیب اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف
پی ٹی آئی نے ان کی بیٹی ایمان مزاری کی جانب سے بطور پٹیشنر درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ہمیں نہیں معلوم شیری مزاری اس وقت کہاں ہیں؟ اور انہیں کس جرم میں اٹھایا گیا کچھ معلوم نہیں، استدعا ہے کہ شیری مزاری کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔ڈاکٹر شیریں مزاری کی بازیابی کی درخواست
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو پیش کردی گئی اور انہیں گھر پر ہی اس فوری نوعیت کے مقدمے سے آگاہ کیا گیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست پر حکم جاری کرتے ہوئے ہفتہ کی رات ساڑھے 11 بجے عدالت لگانے کا فیصلہ کرلیا۔چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو طلبی کے نوٹسز جاری کردیے اور انہیں کہا گیا ہے کہ وہ پیش ہو کر بتائیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں کی گئی؟۔