اسلام آباد(مانیٹرنگ، آن لائن)سپریم کورٹ نے تفتیشی معاملات میں حکومت میں بیٹھی بعض شخصیات کی مداخلت پر لئے گئے ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر نیب اور ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے روکتے ہوئے ہائی پروفائل مقدمات کے تفتیشی افسران کے تبادلوں پر بھی پابندی لگا دی ہے۔عدالت عظمیٰ نے اس موقع پر چیرمین نیب،ڈی جی ایف آئی اے،
سیکرٹری داخلہ،تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز،لیگل ڈائریکٹر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام فریقین سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت جمعہ 27 مئی کے لئے ملتوی کردی ہے۔ از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ ارٹیکل 25 10/A اور 4 کی عملداری ہونی چاہیے، کریمنل جسٹس سسٹم کی شفافیت اور ساکھ کر برقرار رکھا جائے، عدالتی کاروائی کا مقصد صرف اسی حد تک ہے۔دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت کے رو برو پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پیپر بک پڑھا ہے۔جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ جی میں نے پیپر بک پڑھا ہے،پیپر بک میں عدالت کے معزز جج کی جانب سے مداخلت کے بارے میں ہے،جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس نوٹس لینے کی جو وجوہات صفحہ نمبر دو پر موجود ہیں،وہ پڑھیں، پیپر بک نمبر دو میں ڈاکٹر رضوان کی اچانک دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے موت کا ذکر ہے،ازخود نوٹس کیس میں تیارکی گئی پیپر بک میں مختلف اخبارات کے تراشے شامل ہیں،رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف تحقیقات کرنے والے افسران تبدیل کیے گئے،ڈی جی ایف آئی اے جیسے قابل افسر کو بٹایا گیا،
بتایا جائے ہائی پروفائل کیسز میں افسران کے تقرر تبادلے کیوں کیے گئے،ہم نے پراسیکیوشن برانچ کے شفاف اور آزادانہ کام کو یقینی بنانا ہے،جج نوٹ کے مطابق ایف آئی اے کے لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹر کو تبدیل کردیا گیا،ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا،سو موٹو کا بیک گراؤنڈ آپ نے پڑھ لیا،ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی کو پیش ہونے سے منع کیا،پراسیکیوشن برانچ اور پراسیکیوشن کے عمل میں مداخلت
نہیں ہونی چاہیے، پراسیکیوشن کو کیوں ہٹایا گیا جاننا چاہتے ہیں،ڈی جی ایف آئی اے سندھ سے ہیں اچھا کام کرہے تھے، کے پی کے میں بھی انکی کارکردگی اچھی تھی، ڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں،ڈاکٹر رضوان ایک قابل افسر تھے انہیں کیوں ہٹایا گیا، ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کر دیا گیا،ڈاکٹر رضوان کو بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا،ان معاملات پر تشویش ہے، اخبار کے تراشوں کے مطابق ای سی ایل سے نام نکلنے پر
ہزاروں افراد کا فائدہ ہوگا، ان معاملات کو جاننا چاہتے ہیں، اخبار کی خبر کے مطابق ای سی ایل رولز میں تبدیلی سے تین ہزار افراد کو فائدہ ہوگا، ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ہماری ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے،یہ کاروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا کسی کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں ہے،یہ
کاروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کیلئے ہے،چاہتے ہیں آرٹیکل 10/A 4 اور 25 پر عمل کیا جائے،ہم متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کررہے ہیں، وضاحت کریں مقدمات میں مداخلت کیوں ہورہی ہے، ایف آئی اے پراسیکوٹر نے مداخلت پر بیان دیا،امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی،اپریل اور مئی میں کئی اخباری خبروں کو پیپر بک میں شامل کیا گیا ہے،خبروں کے مطابق نیب کا
فوجداری ریکارڈ غائب ہونا شروع ہو گیا،نیب کے چار مقدمات میں ریکارڈ گم ہونے کی خبر بھی ہے، اٹارنی جنرل ان معاملات میں ہماری مدد کریں،جج کو اپنی زمہ داریوں سے اگاہ ہونا چاہیے، ججز کو بڑا محتاط ہونا چاہیے، ججز کو قانون کے مطابق فرائض سمجھنے ہیں،اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے نے ان معاملات کے تردید نہیں کی، ایف آئی اے کا موقف ہے یہ روٹین کے معاملات ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس
دیئے کہ مقدمات کی نامکمل دستاویزات کا ریکارڈ محفوظ بنانے کیلئے اقدامات سے آگاہ کیا جائے،ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ ایف آئی اے اور نیب میں چیک کیا جائے، ریکارڈ کو چیک کرنے کے بعد سیل کیا جائے، ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ چیک کر کے مجاز اتھارٹی کو رپورٹ پیش کی جائے۔اس دوران اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ریکارڈ سیل کرنے سے ٹرائل رک جائے گا۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زیر التواء مقدمات
کا ریکارڈ سیل نہیں کر رہے ہیں، پراسیکیوشن کے ریکارڈ کو سیل کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے اس موقع پر ایف آئی اے میں ٹرانسفر پوسٹنگ،افسران کو ہٹانے،تحقیقاتی اور پراسیکوشن برانچ میں تبدیلیوں سمیت نیب کی تحقیقاتی اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ میں ٹرانسفر پوسٹنگ پر بھی جواب طلب کر لیا ہے،عدالت عظمی نے قرار دیا ہے کہ نیب اور ایف آئی اے نے نو تحقیقات کی اور پراسیکوشن برانچز میں کس کو تبدیل کیا اور اس کی جگہ پر کون
آئے،گزشتہ چھ ہفتوں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے،ای سی ایل سے نکالے گئے ناموں کی تفصیلات، جس طریقہ کار سے ای سی ایل سے نام نکالے گئے اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ مقدمات کی نامکمل دستاویزات کا ریکارڈ محفوظ بنانے کیلئے اقدامات سے آگاہ کیا جائے،ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ ایف آئی اے اور نیب میں چیک کیا جائے، ریکارڈ کو چیک کرنے کے بعد سیل کیا جائے، ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ چیک کر کے مجاز اتھارٹی کو رپورٹ پیش کریں۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے چیرمین نیب،ڈی جی ایف آئی اے، سیکرٹری داخلہ،تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز،لیگل ڈائریکٹر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام فریقین سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت جمعہ 27 مئی کے لئے ملتوی کردی ہے۔