لاہور( این این آئی) لاہور پولیس نے پنجاب اسمبلی کے ڈائریکٹر سکیورٹی میجر (ر)فیصل حسین سمیت اسمبلی کے مزید افسران کوگرفتار کر لیا۔ترجمان پنجاب اسمبلی کے مطابق پولیس نے ضمانت پر ہونے کے باوجود فیصل حسین کو حراست میں لیا۔سکیورٹی اہلکار سہیل شہزاد،لیاقت علی،طبیب اور اسامہ کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس سیکرٹری
اسمبلی محمد خان بھٹی کی گرفتاری کے لئے بھی چھاپے مار رہی ہے۔ پولیس نے اتوار کے روز ریسرچ افسر شہباز حسین اور 2 سکیورٹی افسران کو حراست میں لیا تھا۔ترجمان پنجاب اسمبلی نے بتایا کہ سپیکر پرویز الٰہی کے پرسنل سٹاف افسر کی گرفتاری کیلئے بھی چھاپے مارے گئے ہیں۔دوسری جانب وزیر اعلی پنجاب کے حلف کے خلاف دائر اپیلوں پر پانچ رکنی لارجر بنچ کل سماعت کرے گا ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صداقت خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے وزیر اعلی کی حلف برداری کے احکامات کے خلاف اپیلوں پر حمزہ شہباز کو دوبارہ نوٹس جاری کررکھے ہیں۔فاضل بنچ کی جانب سے تحریک انصاف کے وکیل کو اپیل اور بیان حلفی میں ضروری ترمیم کی اجازت بھی دی گئی ہے ۔وفاقی حکومت اور پنجا ب حکومت کے وکلا نے بھی تحریری جواب جمع کرانے کے لئے مہلت طلب کر رکھی ہے۔علاوہ ازیں پنجاب بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین فرحان شہزاد نے کہا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق صدر مملکت وزیر اعظم اور کابینہ کی جانب سے گورنر کی تعیناتی کیلئے بھجوئے گئے نام کی منظوری دینے کے پابند ہیں ۔
وزیر اعظم اورکابینہ کی جانب سے اس تناظر میں بھجوائی گئی سمری زیادہ سے زیادہ 25روز تک ہی روکی جا سکتی ہے ،اگر آئین و قانون پر عملدرآمدنہ ہو تو معاشرے جنگل بن جاتے ہیں اور اس سے بیگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل48 ون کے تحت گورنرپنجاب کو عہدے سے ہٹایا گیا ہے ،نئی تعیناتی آرٹیکل101کے تحت وزیر اعظم اور کابینہ کی سفارش پر ہی کی جاسکتی ہے اورصدر کی منظوری ہونا ہوتی ہے ۔آرٹیکل48کا سب آرٹیکل ون کہتا ہے اس پر صدرنے رضامندی ظاہر کرنی ہے ۔
صدر زیادہ سے زیادہ 15روز سمری کو روک سکتا ہے اور اس کے بعد 10دن کے اندراند رصدر کو اس پر قانون کے مطابق ایکشن کرنا ہے ۔ نئے گورنر کی تعیناتی کوصدر 15روزیا اس کے بعدزیادہ سے زیادہ 10روز تک روک سکتا ہیں،25روزکے بعد جو نام وزیر اعظم اورکابینہ کی جانب سے بھجوایا گیا ہوگا وہی حتمی تصور کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ آئین کی تشریح کیلئے اعلی عدلیہ موثر پلیٹ فارم ہے اور عدلیہ نے ایسے معاملات میں ہمیشہ آئین کی تمام شقوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے متوازن فیصلے دئیے ہیں۔