اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ٗ آن لائن)پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ عمران خان! ایٹم بم گرانے کی مکروہ بات کرتے تمہیں شرم آنی چاہیئے، تم جانتے بھی ہو کیا اول فُول بک رہے ہو یا مکمل طور پر مت ماری گئی ہے؟ انہوں نے ٹویٹر پر اپنے ردعمل میں کہا کہ “اس سے بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم گرا دیا جاتا۔” عمران خان ہمارے ملک کے
بارے میں ایسی مکروہ بات کرتے ہوئے تمھیں شرم آنی چاہیے۔جانتے بھی ہو کیا اول فُول بک رہے ہو؟ یا مکمل طور پر مت ماری گئی ہے؟ خیال رہے کہ سابق وزیراعظم و پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے پیغامات آرہے ہیں لیکن میں کسی سے بات نہیں کررہا، میں نے ان لوگوں کے نمبر بلاک کر دیے ہیں، جب تک الیکشن کااعلان نہیں ہوتا،تب تک کسی سے بات نہیں ہو گی،جن لوگوں کو لایا گیا، اس سے بہتر تھا پاکستان پرایٹم بم گرا دیتے، فارورڈ بلاک بنانے والے لیگی ایم پی ایز کو طاقتور حلقوں نے پیغام دیا جہاں ہیں،وہیں رہیں، اگر فارورڈ بلاک بن جاتا تو ن لیگ کی سیاست ختم ہو جاتی۔ صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان نے کہاکہ شہباز شریف کے علاوہ بھی کردار میر جعفر اور میر صادق ہیں، وقت آنے پر ان کرداروں کے نام لوں گا۔انہوں نے کہا کہ ’نیوٹرلز‘ کوبتایا تھا معیشت مشکل سے مستحکم ہوئی ہے، شوکت ترین نے بھی ان کوسمجھایا سیاسی عدم استحکام معیشت کیلئے نقصان دہ ہے، جو اس سازش کا حصہ بنے، ان سے سوال کرتا ہوں، کیا سازش کا حصہ بننے والوں کو پاکستان کی فکر نہیں تھی؟
پاکستان سازش میں شریک لوگوں کی ترجیحات میں نہیں تھا؟ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو لایا گیا، اس سے بہتر تھا پاکستان پرایٹم بم گرا دیتے، جو کرمنلز لائے گئے، انہوں نے ہر ادارہ اور جوڈیشل سسٹم تباہ کردیا، کون سا حکومتی آفیشل ان مجرموں کے کیسزکی تحقیقات کرے گا؟ عمران خان کا کہنا تھاکہ میں سمجھتا تھا کرپشن بااثر شخصیات کیلئے بھی ایشو ہے، میں سمجھتا تھا کہ کرپشن پر ہمارا نظریہ ایک ہے لیکن کرپشن اہم شخصیات کیلئے مسئلہ ہی نہیں تھا۔
میں صدمے میں ہوں کہ یہ لوگ چوروں کو اقتدار میں لائے، مجھے بارہا کہا گیا آپ کرپشن کیسز کے پیچھے نہ پڑیں، مجھے کہا جاتا تھا کہ کارکردگی پر توجہ دیں۔انہوں نے کہا کہ سازش کرنے والوں نے غلط اندازہ لگایا، انھیں نہیں پتہ تھا مجھے ہٹانے پر اتنیعوام سڑکوں پرنکل آئیں گے۔اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کے حوالے سے سابق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ آخری دن تک اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اچھے رہے، دو معاملات پر اس سے عدم اتفاق رہا۔
مقتدر حلقے چاہتے تھے عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹاؤں، انھیں بتایا سندھ میں گورننس اور کرپشن کے حالات بدتر ہیں، عثمان بزدار کی جگہ کسی اور کو لگاتا تو پارٹی میں دھڑے بندی ہو جاتی۔ان کا کہنا تھاکہ اسٹیبلشمنٹ سے دوسرا ایشو جنرل فیض کے معاملے پر تھا، میں چاہتا تھا کہ جنرل فیض سردیوں تک ڈی جی آئی ایس آئی رہیں، انہیں برقرار رکھنےکی ایک وجہ افغانستان کی صورتحال تھی جنرل فیض کو داخلی سیاسی صورتحال کیلئے بھی برقرار رکھنا چاہتا تھا۔
مجھے اپوزیشن کی سازش کا جون سے پتہ تھا، ہمیشہ ایسے فیصلے ہوتے رہے کہ میری حکومت کمزور رہے۔ان کا کہنا تھاکہ ن لیگ کے 30 ایم پی ایز فارورڈ بلاک بنانا چاہتے تھے، اگر فارورڈ بلاک بن جاتا تو ن لیگ کی سیاست ختم ہو جاتی لیکن ان ایم پی ایز کو طاقتور حلقوں نے پیغام دیا جہاں ہیں، وہیں رہیں، 8، 10لوگوں کو کرپشن میں سزا ہونی چاہئے تھی لیکن ایسا ہونے نہیں دیا گیا۔
اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے عمران خان کا مزید کہنا تھاکہ اسٹیبلشمنٹ سے پیغامات آرہے ہیں لیکن میں کسی سے بات نہیں کررہا، میں نے ان لوگوں کے نمبر بلاک کر دیے ہیں، جب تک الیکشن کااعلان نہیں ہوتا،تب تک کسی سے بات نہیں ہو گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ میں یوکرین معاملے پر ووٹنگ میں حصہ نہ لینا درست فیصلہ تھا۔اسلام آباد مارچ سے متعلق ان کا کہنا تھاکہ اسلام آباد مارچ کیلئے تیاری شروع کر دی ہے، جب عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو بہت سے آپشن کھل جاتے ہیں۔