اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آرٹیکل 62اہلیت سے متعلق ہے ،آرٹیکل 63اے الگ پڑھا جائیگا ، سزا صرف رکن کا ڈی سیٹ ہونا ہے ۔ ایک سینئر صحافی کے مطابق جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب سے 63 اے سے متعلق پوچھا گیاکہ اسکی تشریح کیا ہے تو
انہوں نے جواب دیاکہ صدارتی ریفرنس میں کوئی قانونی سوال نہیں۔ انہوںنے بتایاکہ آرٹیکل 62 اہلیت سے متعلق ہے اور آرٹیکل 63 اے آئین میں 62 سے الگ پڑھا جائیگا یعنی نااہلی نہیں بنتی سزاء صرف رکن کا ڈی سیٹ ہونا ہے۔دوسری جانبسپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی درخواست پر مشتمل صدارتی ریفرنس دائر کرنے میں وزارت قانون کو نظرانداز کردیا گیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان کا مؤقف ہے کہ الیکشن ایکٹ سے منسلک آرٹیکل 63 اے کے ریفرنس کا تعلق وزارت پارلیمانی امور سے ہے جس نے تمام تر رسمی ضابطے پورے کیے ہیں تاہم قانونی ماہرین اور سابق حکومتی عہدیداران کا اصرار ہے کہ یہ وزارت قانون کا دائرہ کار ہے۔وزارت قانون کے ذرائع نے نشاندہی کی کہ صدارتی ریفرنس میں درخواست کی گئی ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی ایسی تشریح جو انحراف کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق رکن کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کسی پیشگی کارروائی مثلاً کسی قسم کی پابندی یا نئے سرے سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتی۔
انہوں نے کہاکہ آرٹیکل 63 اے خود آرٹیکل 63 کی وضاحت ہے جو وزارت قانون کا دائرہ کار ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ مسئلے پر وزارت قانون کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے کیونکہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹ دینے کا ارادہ رکھنے والے پی ٹی آئی کے مخالفین کو نااہل قرار دینے کے لیے آرڈیننس جاری کرنے کی تجویز پر اعتراض کیا تھا۔
وزارت قانون کے مطابق آرٹیکل 63 (1) پی قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کی نااہلی سے متعلق ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس پیراگراف کے مقاصد کیلئے قانون میں آرٹیکل 89 یا آرٹیکل 128 کے تحت جاری کردہ آرڈیننس شامل نہیں ہوگا۔ذرائع کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی قانون ساز کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نا اہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ وزارت قانون سے اعتراض پر نظرثانی کرنے اور اختلاف کرنے والوں کو روکنے کے لیے ایک ‘مبہم’ آرڈیننس کا مسودہ تیار کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن ‘وزارت نے تعاون نہیں کیا۔بعد ازاں نہ صرف وزارت قانون کو صدارتی آرڈیننس فائل کرنے میں مزید مشاورت سے دور رکھا گیا بلکہ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق اجلاس بلانے کے مطالبے پر بھی ان کی رائے نہیں لی گئی۔
باخبر ذرائع کے مطابق صدارتی ریفرنس کا مسودہ اٹارنی جنرل نے تیار کیا اور ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کے لیے اسے پارلیمانی امور کے ڈویڑن کے پاس بھیجا۔بعدازاں وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے چند تبدیلیوں کے بعد 1973 کے رول آف بزنس کے سیکشن 16 کے ذیلی سیکشن ‘ای’ کے تحت اسے کابینہ ڈویڑن میں جمع کروایا اس سیکشن میں وفاقی کابینہ کے سامنے لائے جانے والے معاملات کی وضاحت دی گئی ہے اور اس کے ذیلی سیکشن آرٹیکل 186 کی شق (1) قانونی سوالات پر سپریم کورٹ سے مشورے لینے کا حوالہ دیتی ہے۔
رول آف بزنس کے شیڈول وی بی کے سیکشن 54 کے مطابق متعلقہ ڈویڑن کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی قانونی سوال پر سپریم میں ریفرنس پیش کرے۔وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی برائے بیوروکریسی خواجہ ظہیر احمد کا کہنا ہے کہ آئین کے سیکشن 14 بی سے واضح ہوتا ہے کہ ہر ڈویڑن کو کسی بھی قانون کی تشریح کے سلسلے میں قانون اور انصاف کے ڈویڑن سے مشورہ لینا ہوتا ہے۔