اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا قوانین کو ڈریکونین قرار دیتے ہوئے پیکا آرڈیننس کے تحت گرفتاریوں سے روکنے کے احکامات میں توسیع کردی۔جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پیکا آرڈیننس کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کی درخواست پر سماعت کے دوران مذکورہ آرڈیننس کے تحت گرفتاریوں سے روکنے کے احکامات میں توسیع کرتے ہوئے
اٹارنی جنرل آف پاکستان کی طرف سے ہدایات لینے اور دلائل کے لیے مہلت کی استدعا پر سماعت ملتوی کردی۔اس قبل گزشتہ روز سماعت کے دوران درخواست گزار رضوان قاضی پی ایف یو جے کے ایڈووکیٹ عادل عزیز قاضی کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے تھے جبکہ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ خان نیازی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود، ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ اور دیگر بھی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔اس موقع پر پی ایف یو جے کے فنانس سیکریٹری جمیل مرزا، نائب صدر فرحت فاطمہ، طارق عثمانی اور دیگر بھی موجودتھے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا اور کہاکہ عدالت کو معلوم ہے کہ حکومت ہتک عزت کے قانون کو فوجداری قانون سے نکال رہی ہے، یہ کیس عدالت کے لیے حیرت انگیز ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ حکومت اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف اس قانون کو استعمال کر رہی ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔انہوں نے کہا کہ عدالت کے لیے یہ بات تشویش ناک ہے کہ قوانین کو آرڈی نینس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا، یہ عدالت پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کالعدم قرار کیوں نا دے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا میں عدالتیں ایسا کر چکی ہیں، اگر ایگزیکٹو کو اپنی ساکھ کا اتنا خیال ہے تو اس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں۔
انہوں نے کہاکہ ہر پبلک آفس ہولڈر کی طاقت پبلک میں اس کی ساکھ ہوتی ہے، ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا ہے اس نے ایسا کیا، جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے سیاسی جماعتیں اور کارکنان ہی اس بات کے ذمہ دار ہیں تو پھر وہ اختلاف رائے سے کیوں ڈرتے ہیں؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہتک عزت کا مقدمہ بہتر کر لیں، اس کا فیصلہ 90 روز میں ہو،
عدالت کے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20 کو کیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ اسے غیر آئینی قرار دے، میرے خیال سے یہ غیر آئینی نہیں، قانون کا غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈز ہونے چاہئیں، میں اس کے دفاع کے لیے تیار ہوں۔انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک منصوبہ ہے اور وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے،
بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ہتک عزت کے قوانین کو ڈی کریمنلائز نہیں کیا گیا، اگر کوئی کسی پردہ نشین خاتون کو کہے کہ وہ جادو ٹونہ کرتی ہیں توکیا یہ آزادی اظہار رائے ہے۔انہوں نے کہاکہ جنہوں نے یہ قانون بنایا تھا انہوں نے بھی اس کو چیلنج کیا ہے، لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اسے چیلنج کیا گیا ہے، بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اپوزیشن کی تو سینیٹ میں اکثریت ہے، آپ کے پاس اختیار ہے کہ آپ اس کو مسترد کر سکتے ہیں، آپ پارلیمنٹ میں جا کر اپنا کردار ادا کریں۔عدالت کے سامنے جتنے کیسز آئے ہیں، اس میں ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے اختیار کا غلط استعمال کیا، آپ ایف آئی اے کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ شکایت پر کسی کو پکڑ لے اور ٹرائل تک بندہ اندر رہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا فرض ہے کہ پارلیمنٹ کا حترام کرے،
آپ نے آرڈینینس بنایا، سینیٹ کو اس سے منظور یا مسترد کرنے دیں، آرڈی نینسز کی منظوری اس لیے دی گئی ہے کہ 33 سال سے ملک آرڈی نینسز پر چلتا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں ایف آئی اے جا کر گرفتار کرے گا اور ٹرائل کے اختتام تک وہ قید رہے گا، یہ ایک سخت قانون ہے، اس کے ذریعے تو آپ سیلف سینسر شپ کر رہے ہیں، آپ نے پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتی ساکھ کی حفاظت پر لگا دیا ہے،
اس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہو سکتی ہے کہ اس عدالت اور سپریم کورٹ کے سامنے ایس او پیز پیش کیے مگر عمل نہیں کیا۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں رولز پڑھ کر بتاؤں گا، دونوں ہاؤسز نہیں، ایک ہاؤس سے بھی منظوری لی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، اگر ایک ہاؤس بھی آرڈی نینس کو مسترد کر دے تو وہ مسترد تصور ہو گا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 70 سالوں میں ہم ملک کو اس جگہ لے آئے اور اب ڈرتے ہیں کہ کوئی بات بھی نہ کرے،
برطانیہ میں بادشاہت بچانے کے لیے ہتک عزت کے قانون کو کریمنلائز کیا گیا تھا جو بعد میں ختم کر دیا گیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ برطانیہ میں تو احتساب عدالتیں بھی نہیں ہیں، وہاں کے حکمران بعد میں کہیں بھاگ بھی نہیں جاتے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس قانون کا اطلاق سیاسی تقاریر پر نہیں ہو گا۔اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ بات واضح کریں کہ کسی تقریر پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا،
بلال غوری نے ایک کتاب سے پڑھ کر تاریخی حقائق بیان کیے اور ایف آئی اے نے کارروائی کی۔لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بلکہ اس دن قومی اجلاس ہونا تھا جس سے ملتوی کردیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ اظہار رائے پر قدغن کی وجہ سے آدھا ملک ہم سے چلا گیا، جہاں اظہار رائے کی آزادی نہیں وہاں ترقی ممکن نہیں، یہ عدالت ایف آئی اے کو صرف پبلک آفس ہولڈر کے تحفظ کے لیے نہیں چھوڑے گی۔
انہوں نے کہاکہ ہر شخص کو آئین کے تحت اظہارِ رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے، اگر سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا سے مسئلہ ہے تو خود اقدامات کریں، سیاسی جماعتیں بھی سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کا کیا ہوگا، وہ کہیں گے ایس او پیز کے تحت گرفتار کیا،
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ایف آئی اے کو ڈیفنڈ نہیں کروں گا، اس عدالت کا حکم موجود ہے۔پی ایف یو جے کے وکیل عادل عزیز قاضی نے کہا کہ کینیا کی عدالت نے بھی اس حوالے سے فیصلہ دیا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کسی بڑے ملک کا حوالہ دیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی درخواستوں کو خارج کرتے ہیں، سیاسی جماعتیں اگر ذمہ داری پوری کریں تو عدالتوں میں آنا ہی نہ پڑے۔عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ پیکا سے متعلق کیسز کی سماعت 10 مارچ تک ملتوی کر دی۔