لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق رائے ہونے کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری ، میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے حکومت سازی کے حوالے سے ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے اور پاور شئیرنگ کے قابلِ قبول فارمولے پر بھی مشاورت شروع کردی ہےاور تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنا کے لیے جماعت اسلامی اور حکومتی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے قائدین اور ناراض ارکان پارلیمنٹ سے رابطے بڑھانے کے لیے اپنے مختلف رہنماؤں کو ٹاسک سونپ دئیے ہیں۔
روزنامہ جنگ میں مقصود اعوان کی خبر کے مطابق آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ ق اور اے این پی مسلم لیگ ن کی قیادت پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین اور جماعت اسلامی کو اعتماد میں لینے ان کی اعلیٰ قیادت سے رابطے جاری رکھے گی۔ مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کو قریب لانے کا مشکل ٹاسک پیپلز پارٹی نے اپنے ذمےلے لیا ہے، آصف علی زرداری نے شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو یقین دلایا ہے کہ وہ بہت جلد مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے دو بڑے شریف اور چوہدری خاندانوں کے تحفظات دور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے پی ڈی ایم میں شامل مختلف جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کی صورت میں مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری حکمران جماعت کی اتحادی مسلم لیگ (ق) کووزارت اعلیٰ دینے کے حق میں ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) بالخصوص شاہد خاقان عباسی گروپ اِسفیصلے کا مخالف ہے کہ اتنی کم نشستوں پر (ق) لیگ کی بجائے مسلم لیگ (ن) وزارت اعلیٰ پنجاب کی حق دار ٹھہرتی ہے کیوں کہ حکمران جماعت کے بعد (ن) لیگ کی ہی پنجاب اسمبلی میں اکثریت ہے ۔ دوسری طرف مرکز کے لیے بھی ابھی تک کسی کے نام پر اتفاق نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جانب سے دو دو نام وزارت عظمیٰ کے لیے زیر غور ہیں۔ ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ کیس کے باعث شہبازشریف کے کی صورت میں پی ڈی ایم کومشکلات کا سامنا ہوگا اِس لیے شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سےاصف زرداری ترجیحاً بلاول بھٹو اور اُن کے بعد ایک بار پھر راجہ پرویز اشرف کا نام لیا جارہا ہے۔
حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اپوزیشن کو یقین ہے کہ وہ جہانگیر ترین گروپ اور بعض ناراض حکومتی اراکین کی حمایت کرلے گی اسی طرح حکمران جماعت بھی مطمئن ہے کہ اپوزیشن اوردیگر پارٹیوں کے بعض ارکان تحریک عدم اعتماد سے پرے رہیں گے۔ پی ڈی ایم میں فعال مختلف سرکردہ شخصیات کا خیال ہے کہ اپوزیشن اتحاد تحریک عدم اعتماد کے دوران آسانی سے حکومت کے خلاف نمبر گیم پوری کرلے گا اِس لیے اب نئے سیٹ اپ پر اتفاق رائے قائم کیا جارہا ہے۔