لیہ (آن لائن )جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ صدارتی نظام کی باتیں آئین کو منہدم کرنے کے مترادف ہیں اور آئین کو ختم کرنے یا چھیڑنے والا ملک کو توڑنے کا ذمہ دار ہو گا، ہمارا کھیل شروع ہو گیا ، عدم اعتماد کی بات شروع کردی ہے ۔ منگل کے روزلیہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ
ہم کسی کو یہ نہیں بتاتے کہ آئین ہوتا کیا ہے، ایک آمر تو یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دو چار ورقوں کی چیز ہے اسی پھینک دو لیکن آئین مملکت پاکستان کا وہ مقدس دستاویز ہے جسے پوری قوم اور تمام مسالک، مکاتب فکر و برادریوں کے درمیان میثاق ملی کی حیثیت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین نے اس قوم کو ایک قوم بنایا ہوا ہے اور اگر آئین بیچ سے نکل جائے تو اس ملک کی مملکت کے ساتھ کمٹمنٹ کی اساس ختم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی طرز آئین کا اہم اور چوتا عنصر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کوئی صدارتی طرز حکومت نہیں چلے گا، صدارتی طرز حکومت جبر کی علامت ہے، یہ ماضی اور تاریخ کے آئینے میں آمریت کی علامت ہے، آج پھر صدارتی نظام کی باتیں کی جا رہی ہیں، یہ آئین کو منہدم کرنے کی باتیں ہیں۔جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہاکہ آج کل کی جانے والی صدارتی نظام کی تجاویز دراصل پاکستان کو دولخت کرنے کا منصوبہ اس کے پیچھے نظر آ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ آئین پر عملدرآمد نہ کرنا ہے، ہماری پارلیمنٹ میں ایسے لوگ بھر دیے جاتے ہیں جان کا آئین و سنت سے کوئی لینا دینا نہیں اور ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی پاور پولیٹکس کرتی ہے اور ہمارے سیاستدان بھی اس کی بنیاد پر پاول پولیٹکس پر چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئین کے تحفظ کی بات کریں گے کیونکہ آئین کے تحفظ بات کرنا پاکستان کے تحفظ، ایک پاکستانی قوم کی بات کرنا ہے جس میں کوئی فرقہ واریت، قومی تعصبات اور لسانی نفرتوں کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اگر اس پر عمل نہیں ہو گا تو پھر آئے روز صوبوں کے اندر چھوٹی قومیتیں، چھوٹے صوبے اپنی محرومیوں کی بات کریں گے۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ اگر ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے تو پھر وہاں بغاوت ہی اٹھتی ہے، میں پاکستان کے عوام اور قوم کو سلام پیش کرتا ہوں کہ آج اس ملک کے دیوالیہ پن کے ماحول میں بھی قوم کا ایک، ایک فرد پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ نے آج تک ایسے حالات نہیں دیکھے تھے، چیئرمین ایف بی آر کہہ رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے نہیں والا بلکہ دیوالیہ ہو چکا ہے، یہ میں نہیں بلکہ چیئرمین ایف بی آر کہہ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ اسمبلی جعلی ہے اور اس میں جمہوریت کی روح نہیں ہے، اس اسمبلی نے ایف اے ٹی ایف کے حکم پر اور ان کے دباؤ پر قانون سازی کی اور ملکی معیشت کو بیرونی اداروں کا غلام بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سال میں ایک ہی بجٹ آتا تھا لیکن ہم نے آج پہلی ایسی نااہل اور نالائق حکومت دیکھی ہے جو سال میں چار مرتبہ بجٹ پیش کرتی ہے اور پاکستان سالانہ ترقی کی شرح صفر سے نیچے چلی گئی ہے۔جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے مزید کہا کہ بھارت کے روپے کی ڈالر کی قدر دیکھ لیں، بنگلہ دیش کے ٹکے کے مقابلے میں پاکستان کا روپیہ اب ٹکے کا بھی نہیں رہا، جنگ زدہ افغانستان کی کرنسی بھی پاکستان سے مضبوط ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئین کو کہیں سے بھی چھیڑا گیا تو ہم ان کو پاکستان کو توڑنے کا ذمیدار آج سے قرار دیتے ہیں، پھر حمودالرحمٰن کمیشن بنیں گے، ہم آج یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ آئین کو ختم کرنا یا چھیڑنا ملک کو توڑنے کا ذمے دار ہو گا۔ وزیراعظم کی جانب سے دس بہترین وزراتوں کو تمغے دینے کے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر دفاع ان کے نزدیک کسی تمغے کا مستحق نہیں ہے تو اس مطلب یہ ہوا کہ ہمارے فوج اور جنرل پر انہوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، فوجی جرنیلوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وزیراعظم ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کھیل شروع ہو گیا ہے اور ہم نے عدم اعتماد کی بات شروع کردی ہے، پاکستان ڈیموکریٹک نے جو فیصلہ کیا ہے ہم نے اس حوالے سے آگے بڑھنا ہے۔