اسلام آباد (آن لائن) سینئر نائب صدر مسلم لیگ ن شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کی جو رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ 228 صفحات پر مشتمل ہے یہ کاپی سرکای طور پر نہیں آئی۔ انہوں نے کہا اکبر ایس بابر نے جو باتیں کی اسکا ثبوت اس رپورٹ میں موجود ہے۔ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے انہوں نے کہا الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کی جو رپورٹ شائع کی ہے۔
یہ رپورٹ 228 صفحات پر مشتمل ہے یہ کاپی سرکای طور پر نہیں آئی۔ انہوں نے کہا اکبر ایس بابر نے جو باتیں کی اسکا ثبوت اس رپورٹ میں موجود ہے۔ انہوں نے نے کہا اکبر ایس بابر عام آدمی نہیں تھے وہ جانتے تھے یہ جماعت کیا کررہی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ پی ٹی آئی فنڈز کی غیر قانونی اقدام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے مالی امور کو جانتے تھے۔ انکا کہنا ہے کہ جو تفصیلات پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی وہ جعلی ہیں۔ انہوں نے کہا دوسرے ممالک سے جو پیسے پاکستان آئے کیا وہ پاکستان کے قوانین کے مطابق تھے؟ الزامات کے جوابات کے لئے اکبر ایس بابر نے جواب مانگا۔ انہوں نے کہا الیکشن کمیشن نے پوری کوشش کی لیکن کوئی ریکارڈ عمران خان نے پیش نہیں کیا۔ کبھی وکیل بدل جاتے تھے کبھی تاریخ بدل جاتی تھی۔ انہوں نے کہا حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں پٹیشن کی تو ہدایت پر الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی بنائی۔ کوئی بھی تفصیل آج تک عمران خان اور تحریک انصاف نے نہیں دی۔ انہوں نے کہا یہ بڑا ثبوت ہے اس ڈاکے کا کہ کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا۔ اور یہ اس سارے معاملہ کی بنیادی حقیقت ہے۔ انہوں نے کہا یہ کوشش کی گئی کہ کمیٹی کی تفصیل کسی سے شئیر نہ کی جاسکیں۔ جبکہ اس دستاویز کو پبلک نہ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا یہ رپورٹ صرف 5 سال کی ہے۔ 2013 کے بعد کا ریکارڈ اس میں موجود نہیں ہے۔
جو ثبوت اس میں موجود ہیں وہ تفصیل پی ٹی آئی نے نہیں کمیٹی نے خود حاصل کی ہیں۔ ان اکاونٹس کے مطابق 1 عشاریہ 3 ارب روپیہ آیا۔ تا ہم اسٹیٹ بینک کے مطابق ان اکاونٹس میں 1 عشائیہ 6 ارب روپیہ آیا۔ 30 کروڑ روپیہ ابھی بھی لاپتہ ہے کہاں گیا۔ انہوں نے کہا 2008 اور 2009 میں رقم کم تھی اسکے بعد 2 کروڑ، 6 اور پھر 14
کروڑ روپیہ غائب ہوگیا۔ انہوں نے کہا 5 سال میں 31 کروڑ روپیہ ان اکاونٹس سے غائب ہوگیا۔ پی ٹی آئی کے اکاونٹس کی تعداد بھی مکمل معلوم نہیں۔ اسٹیٹ بینک بتاتا ہے انکے 18 اکاونٹس تھے۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق انکے 4 اکاونٹس ہیں۔ 14 اکاونٹس کا مقصد کیا تھا کچھ علم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا 2013 سے 2018
تک اکاونٹس کا یہ معاملہ اربوں روپے تک پہنچ جائے گا۔ ابھی تو فارن فنڈنگ کی بات ہوئی ہی نہیں یہ تو وہ پیسہ ہے جو فنڈز ان اکاونٹس میں موصول ہوئے۔ انہوں نے کہا امریکا میں 2 کمپنیاں بنائی گئی دونوں کمپنیوں کے فیصلے کرنے والے عمران خان ہیں۔ پاکستان کا قانون کہتا ہے آپ کسی فرد سے پیسہ لے سکتے ہیں کسی کمپنی
سے نہیں۔ کمپنیاں چلانے اور پیسہ حاصل کرنے والے بھی خود ہیں۔ انہوں نے کہا امریکہ میں قائم ان دونوں کمپنیوں کا ریکارڈ آج تک الیکشن کمیشن میں یا نہ اسٹیٹ بینک کو ملا۔ آج تک ان دونوں کمپنیوں نے ریکارڈ کسی کو نہیں کی دیا۔ اس اسکروٹنی کمیٹی نے خود جاکر امریکا کے ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس سے جاکر اکٹھا کیا۔ اس وقت کے 23
کروڑ روپے کی تفصیل اس میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا عمران خان نے آج تک ان اکاونٹس کی کوئی تفصیل مہیا نہیں کی۔ انہوں نے کہا چار اور ممالک میں اکبر ایس بابر نے بتایا کہ کمپنیاں تھیں۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور کینڈا میں یہ کمپنیاں بنائی گئیں۔ 50 سے زائد ممالک میں ہی ٹی آئی کے چیپٹرز ہیں جو پیسہ بھجواتے ہیں۔ ان اکاونٹس میں
ٹرانزیکسن ایک 21 لاکھ ڈالر دبئی سے کرکٹ کمپنی کے تحت پیسہ بھیجا گیا۔ اس کمپنی کا مالک کون ہے کسی معلوم نہیں۔ انہوں نے کہا یہ معاملہ ٹپ آف دی ائیس برگ ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا جس میں عمران خان اور بورڈ ممبر اس میں شامل ہیں چار ملازمین کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے ذاتی اکاونٹس میں پیسے
دیئے جاسکیں ان ذاتی اکاونٹس کی کیا ضرورت تھی؟ یہ عمران خان اور عارف علوی کی اجازت سے ہوا۔ انہوں نے کہا ایک اقامہ میں ڈائریکٹر شپ جسکا ایک پیسہ نہیں لیا اس وزیر اعظم کو ہٹایا گیا۔ موجودہ وزیر اعظم کے اکاونٹس میں اتنے پیسے آرہے ہیں اس پر کوئی ایکشن نہیں۔ انہوں نے کہا ریکارڈ دینے جو شخص تیار نہیں سپریم کورٹ اس سے پوچھ نہیں سکتا کہ یہ پیسہ کہاں لیجارہے تھے؟
مزید ان ڈیکلریڈ اکاونٹس ہیں۔ یہ 21 لاکھ ڈالر کرکٹ کلب دبئی سے بھیج رہا ہے۔ جن کو جے آئی ٹی بنانے کا شوق تھا اس خوردبرد پر خاموش کیوں ہیں؟اس نظام میں خرابی پر سوال اٹھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا امید ہے سپریم کورٹ اس کا ازخود نوٹس لے گا۔ ہمیں الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے ماضی کے ازخود نوٹسز پر یقین ہے انہوں نے کہا مریم نواز کی آڈیو بنانے والے اور لیک کرنے والے کون ہیں۔ انہوں نے کہا ہم آپس میں جو گفتگو کرتے ہیں وہ اس سے بھی بدتر ہوتی ہے۔