کابل (آن لائن) سابق افغان صدرحامد کرزئی نے کہا ہے کہ طالبان نے افغان دارالحکومت کابل پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ انہیں اس کی دعوت دی گئی تھی۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ایک انٹرویو میں سابق صدراشرف غنی کے ملک چھوڑنے اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کو شہر میں داخل ہونے کی دعوت دی گئی
تاکہ آبادی کا تحفظ کیا جاسکے اور ملک کو افراتفری سے بچایا جاسکے۔حامد کرزئی نے پہلی بار ایسا اشارہ دیا ہے کہ انہوں نے طالبان کو آنے کی دعوت دی تھی۔ حامد کرزئی نے اس بات پر بھی اصرار کیا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ اور دوحہ میں موجود طالبان قیادت اس حوالے سے ہونے والے معاہدے کا حصہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ اشرف غنی کے جاتے ہی دیگر حکام بھی ملک چھوڑ گئے تھے۔ جب میں نے وزیر دفاع بسم اللہ خان کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ حکام میں سے شہر میں کوئی بھی موجود نہیں ہے۔اس کے بعد میں نے وزیر داخلہ کو فون کیا، پولیس چیف کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی موجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ نہ کور کمانڈر تھے اور نہ کوئی یونٹ، سب جا چکے تھے۔ انہوں نے کہا اشرف غنی کے چلے جانے نے دارالحکومت میں طالبان کے داخلے کے حوالے سے منصوبہ بندی کو درہم برہم کردیا۔ انہوں نے کہا کہ 15 اگست کی صبح افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا ہے جس پر انہوں نے دوحہ فون کیا جہاں سے انہیں بتایا گیا کہ طالبان شہر کے اندر داخل نہیں ہوں گے۔ دوپہر تک طالبان کا بیان آیا کہ حکومت کو اپنی جگہ پر برقرار رہنا چاہیے کیونکہ طالبان شہر میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس کے بعد تین بجے تک واضح ہو چکا تھا کہ سب ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اشرف غنی کے محافظ دستے کے نائب سربراہ نیان سے کہا کہ وہ محل آکر صدارت سنبھال لیں۔تاہم میں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ یہ میرا حق نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس کے برعکس انہوں نیاپنے بچوں کے ساتھ ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تاکہ افغان عوام جان سکیں کہ وہ سب یہاں موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر
اشرف غنی کابل میں ہی رہتے تو پر امن انتقال اقتدار کا معاہد ہ ہوسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج کل روزانہ کی بنیاد پر طالبان قیادت سے ملاقات کرتاہوں۔ دنیا کو ان سے رابطہ کرنا چاہیے،یہ بھی بہت ضروری ہے کہ افغان عوام بھی متحد ہوجائیں۔’اس صورتحال کا خاتمہ تب ہی ہو سکتا ہے جب افغان اکٹھے ہوں اور اپنا راستہ خود تلاش کریں۔