ڈاکٹر رابرٹ کرین 1929ء میں پیدا ہوئے اور 2021ء میں وفات پائی، انہوں نے عوامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، پھر بین الاقوامی قانون میں پی ایچ ڈی کی، پھر وہ ہارورڈ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء کے صدر بن گئے، انہوں نے بہترین اسلامی، مغربی (قدرتی قانون) اور مقامی امریکی دانشمندی کو اس مقام تک پہنچایا جسے ایک دن امریکی اسلامی ورثہ کے طور پر بیان کیا جائے گا۔
16 سال کی عمر میں ہارورڈ انڈر گریجویٹ اور ہارورڈ لاء گریجویٹ، اس نے ہارورڈ انٹرنیشنل لاء سوسائٹی اور اسی نام کے جریدے کی بنیاد رکھی۔ وہ صدر نکسن کے مشیر تھے، جو NSC کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ وہ واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک CSIS کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ وہ صدر ریگن کے مشیر رہے اور متحدہ عرب امارات میں امریکی سفیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی رہے، انہیں امریکہ میں سیاسی امور کا ماہر سمجھا جاتا تھا، وہ امریکہ میں مرکز تمدن و تجدید کے بانی تھے، وہ چھ زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور روانی سے بول سکتے تھے، انہوں نے اسلام پر ایک تحقیقی مضمون تیار کیا، صدر نکسن کے کہنے پر رابرٹ کرین نے اس مضمون کو پڑھا اور اس کا خلاصہ کرکے دیا، لیکن اس مضمون کے مندرجات نے رابرٹ کو اسلام کے متعلق مزید تحقیق پرمجبور کردیا لہذا وہ اس موضوع کے بارے میں مزید معلومات کے لئے اسلامی سیمینارز اور کانفرنسز میں شرکت کرنے لگے، پھر وہ دن بھی آیا کہ رابرٹ نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور پوری ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ان کے قبول اسلام کی خبریں پھیل گئیں، انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا اسلامی نام فاروق عبدالحق رکھا، وہ اسلام قبول کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بطور قانون کا طالب علم ہونے کے مجھے اسلام میں وہ تمام قوانین ملے جن کا میں نے مطالعہ کیا،
میں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں تین سال تک قانون کی تعلیم حاصل کی لیکن مجھے ان کے قوانین میں ایک بار بھی لفظ عدل نہیں ملا، تاہم مجھے یہ لفظ اسلام میں کثرت سے ملا ہے، انہوں نے 1981ء میں اسلام قبول کیا اور اپنانام سیدنا عمر فاروقؓ کے نام پر فاروق رکھا جو کہ پیغمبر اسلامؐ کے بعد عدل کے امام تھے، وہ کہتے ہیں ہم ایک دفعہ
ایک قانونی مباحثہ کر رہے تھے، یہودی قانون کے ایک پروفیسر بھی ہمارے ساتھ تھے، اس کی گفتگو کی باری آئی تو اس نے بولنا شروع کیا اور اپنی گفتگو میں اسلام اور مسلمانوں پر طعن و تشنیع کرنے لگا، جب اس کی دشنام طرازی حد سے بڑھنے لگی تو میں نے اسے خاموش کرانے کی ٹھانی، میں نے اس سے پوچھا کیا آپ کو امریکی
آئین میں وراثت کے قانون کا حجم معلوم ہے، اس نے کہا ہاں، وہ آٹھ جلدوں سے زیادہ ہے، میں نے کہا اگر میں آپ کے پاس وراثت کا ایسا قانون لاؤں جو دس لائنوں سے زیادہ نہیں تو کیا آپ یقین کریں گے کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے، اس نے کہا ایسا ممکن ہی نہیں کہ وراثت کا اتنا لمبا چوڑا قانون صرف دس لائنوں میں سما دیا جائے، میں نے قرآن مجید سے وراثت کی آیتیں نکالیں اوراسے پیش کر دیں، کچھ دنوں بعد وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا، ایک
انسانی ذہن کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تمام قریبی رشتہ داروں کا اتنی وسعت سے احاطہ کرے کہ کسی کو بھی نہ چھوڑے اور پھر ان کے درمیان اتنے عدل سے وراثت تقسیم کرے کہ کسی ایک پر بھی ظلم نہ کرے پھر اس یہودی نے اسلام قبول کر لیا۔ ڈاکٹر رابرٹ ایک عاجز، عقلمند، سوچنے سمجھنے والا اور ہمدرد آدمی تھا۔ درحقیقت، ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور ہم سب اسی کی طرف لوٹیں گے، کچھ کے پاس گہرے احترام اور تعریف کے قابل خوبیوں سے بھری تھیلی ہے۔ان میں ڈاکٹر رابرٹ کرین بھی شامل ہیں۔