پیر‬‮ ، 25 اگست‬‮ 2025 

امریکہ کے ساتھ سودے بازی والے تعلقات نہیں چاہتے، شاہ محمود قریشی

datetime 14  دسمبر‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد( آن لائن ) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے ہم امریکہ کے ساتھ سودے بازی والے تعلقات نہیں چاہتے،ایسے تعلقات چاہتے ہیںجوہماری تبدیل شدہ ترجیحات سے ہم آہنگ ہوں،عالمی سیاست جیو پالیٹکس سے منسلک ہو چکی ہے ، ہمیں جیو پولیٹیکل پالیٹکس سے

جیو اکنامکس پالیٹکس کی جانب سوچنا ہو گا۔ افغان حکومت نے اپنے تمام ہمسایوں کو یقین دلایا ہے کہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔کامیاب خارجہ پالیسی کے مستقبل کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ سٹرٹیجک غلطیاں نہ دوہرائی جائیں جو 1990 کی ابتدا میں ہوئیں جس کے نتیجے میں خانہ جنگی، قحط اور دہشت گردی کی لہریں اٹھیں ۔مارگلہ ڈائیلاگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم ایک غیر یقینی دور میں موجود ہیں،عالمی طاقتوں میں تزویراتی مقابلہ بڑھ گیا ہے عالمی سیاست جیو پالیٹکس سے منسلک ہو چکی ہے پاکستان نے جیو پالیٹکس سے جیو اکنامکس کی جانب پالیسی کی منتقلی کی ہے ہمیں جیو پولیٹیکل پالیٹکس سے جیو اکنامکس پالیٹکس کی جانب سوچنا ہو گاجیو اکنامکس پر مرکوذ کرنے کے کٰی فواٰد ہیں نومبر 2021 میں ہماری برطانیہ سے تجارت میں 22 % اور افریقہ سے تجارت میں 8 % اضافہ ہوا ہے بیرون ممالک پاکستانی پاکستان کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یقیناً ہم بییقینی کے ادوار میں جی رہے ہیں، عالمی نظام شدید دبائو، بے ترتیبی اور تذبذب میں مبتلا محسوس ہوتا ہے، عالمی طاقتوں کے درمیان حالیہ سٹرٹیجک مقابلے نے عالمی امن کی نزاکتوں میں اضافہ کر دیا ہے، سفارتکاری کی ایسی سمت پر ڈال دیا ہے جس کے بارے میں حتمی طورپر کچھ کہنا کافی مشکل ہوگیا ہے،اس دور میں خارجہ پالیسی اور جیوپالیٹیکس زیادہ تر جیواکنامکس سے جْڑ گئی ہیں، معیشت بہت سے انداز میں سٹرٹیجک سمت نما بن کر ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے طور پر نمایاں حیثیت پاچکی ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان جیوپالیٹیکس سے جیواکنامکس کا سٹرٹیجک مدار ومحور بن چکا ہے، جس کی وجہ سے معاشی سفارت کاری کی اہمیت دو چند ہوچکی ہے۔ہمیں موجودہ جیوپالیٹیکس کی ذہنیت کو ازسرنوتشکیل دینا اور جیواکنامکس کی اہمیت کو قبول کرنا ہوگا۔بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ پاکستان پانچویں بڑی آبادی کا حامل ملک ہے، ہماری آبادی کا چونسٹھ فیصد تیس سال کی عمر سے کم ہے، جیواکنامکس پر ہماری توجہ کے یقیناً ثمرات حاصل ہورہے ہیں، وزیر خارجہ نے کہا کہ نومبر2021 تک کورونا کے باوجود ہماری برطانیہ کے ساتھ برآمدات میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے، دسمبر 2019 میں اسلام آباد میں ’انگیج افریقہ’ کانفرنس کے بعد سے افریقہ کے ساتھ ہماری تجارت میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے،بلوم برگ کے مطابق صرف اس سال کے دوران امریکہ، سنگا پور اور متحدہ عرب امارات سے پاکستان میں نئے کاروبار کیلئے 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے، یہ ایک مناسب آغاز ہے اور مستقبل قریب میں ٹیکنالوجی کی صنعت میں بڑا اضافہ متوقع ہے، بیرون ملک ہمارے پاکستانیوں کی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے کاوشوں کے اعتراف کے لئے شروع کی گئی ، بلاشبہ بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی پوری دنیا میں پاکستان کی نمائندگی میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مستقبل کی خارجہ پالیسی سے معیشت کو جوڑنا ہمیں جدید سفارت کاری کے کلیدی ذرائع کی طرف لاتی ہے جو ڈیجیٹل پہلو ہے،ڈیٹا کنٹرول، طرز فکر پراثرانداز ہوتا ہے، بیانیوں کو کنٹرول کرتا ہے

اور آخر کار انداز فکر کی تشکیل کا موجب بن جاتا ہے، ڈیجیٹل سپیس سے جْڑے رہنا، دوسروں سے آگے رہنا اور خبردار رہنا خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول میں نہایت اہمیت حاصل کرچکا ہے،کوئی شک نہیں کہ کورونا عالمی وبا نے ڈیجیٹل ڈپلومیسی کے دریچوں کو بڑھا دیا ہے، سفارت کاری اب محض قیادت کے درمیان ٹیلی فون کالز یا ریاستی دوروں کی حد تک محدود نہیں رہی، ٹیکنالوجی نے اس سے قبل تعلقات کار میں ایسا فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیاتھا، دوطرفہ، سیاسی مشاورت، کثیرالقومی کانفرنسز کا انعقاد ، سب آن لائن ہورہا ہے،آج فہم وادراک کی جنگیں ٹویٹر پر جیتی اور ہاری جارہی ہیں۔ لہذا آج سفارت کاری کی

بہترین جگہ آن لائن ہے جہاں آپ کم وسائل خرچ کرکے زیادہ بڑے نتائج کم وقت میں حاصل کرتے ہیں، وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ نے بڑے واضح انداز میں ان ڈیجیٹل تقاضوں کو ترجیح دی ہے، مثال کے طورپر پاکستان نے سعودی عرب کی قیادت میں ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن”DCO” میں بانی رْکن کے طورپر شمولیت اختیار کی ہے، پاکستان سے چار سرفہرست پروفیشنلز نے اس تنظیم میں قائدانہ مناصب پر شمولیت اختیار کی ہے جس کا سیکریٹریٹ ریاض میں ہے،مستقبل کی سفارتی پالیسی سازی کے

لئے ڈیجیٹل اکانومی سے جڑنے کی طرف یہ اولین قدم ہے، آج سے دس روز قبل ناروے کے ملٹی نیشنل ٹیلی نار کے اشتراک عمل سے زرعی ٹیکنالوجی ایپ شروع کی گئی ہے،جس کے ذریعے پاکستان بھر سے 10 ہزار سے زائد کسانوں کو آپس میں جوڑا گیا ہے تاکہ زرعی پیداوار ور ہماری برآمدات میں اضافہ ہو، انقلابی سائنسی تبدیلیاں پہلے ہی، جنگ اور امن، ماحولیاتی تبدیلیوں ، ہماری معیشتوں،

جیوپالیٹیکس اور ہمارے طرز زندگی پر اثرانداز ہورہی ہیں ،جب ہم مستقبل کی خارجہ پالیسی میں جیواکنامکس کے کردار کی بات کرتے ہیں تو ہمیں چین کے بارے میں لازماً بات کرنا ہوگی، ہمارے چین کے ساتھ تعلقات تنوع اور مزید استحکام کی جانب گامزن ہیں،’بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹو (جس کا سی پیک، ہراول منصوبہ ہے) کے تحت، معاشی جغرافیے اور ایشیاء، یورپ اور افریقہ کے تین متصل براعظموں کے جْڑنے سے تمام دنیا کے شہریوں کے لئے خوش حالی کے نئے در کھلیں گے، ہم امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو

قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے ہم امریکہ کے ساتھ سودے بازی والے تعلقات نہیں چاہتے، ہم کثیرالجہتی تعلقات چاہتے ہیں جو علاقائی اور عالمی پالیسیز کی مدوجزر سے متاثر نہ ہوں، وزیراعظم عمران خان کے ویژن کی روشنی میں جیوپالیٹیکس سے جیواکنامکس کی طرف تبدیلی سے ہم امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات چاہتے ہیں جو ہماری تبدیل شدہ ترجیحات سے ہم آہنگ ہوں،امریکہ کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کارانہ تعلقات میں اضافہ اور خطے کو جوڑنے سے متعلق تعاون ہمارے باہمی مفاد میں کام آسکتا ہے، روس کے ساتھ ہماری سفارتی رسائی سے نہ صرف مفاہمانہ تعلقات کی

استواری مضبوط ہوئی ہے، روس کے ساتھ سلامتی اور معاشی شعبوں میں تعلقات میں ایک نئی زندگی پیدا ہونے سے نئے دروازے کْھلے ہیں، جنوبی، وسطی اور مغربی ایشیاء کے سنگم پر واقع پاکستان جیسا ملک، دوہرے انتخاب نہیں کرسکتا، ہم مساوی فاصلہ رکھیں گے، سب کی رسائی میں رہیں گے اور سب تک پہنچیں گے۔ انہو ں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کی تین کروڑ اسی لاکھ لوگوں میں سے ساٹھ فیصد بھوک افلاس اور قحط کا سامنا کررہے ہیں، انسانی بحران کی انتہائی

سنگین صورتحال درپیش ہے جس کے نتائج کا سامنا نہ صرف افغانستان کے عوام کو ہے بلکہ ہمسایہ ممالک کے طور پر ہمیں ، خطے اور دنیا کو بھی یقینی طور پر کرنا ہو گا ،پاکستان 19 دسمبر کو اسلامی تعاون تنظیم (او۔آئی۔سی) کے غیرمعمولی اجلاس کی میزبانی کررہا ہے، تاکہ مساوی طور پر خوراک، ادویات کی فراہمی میں مدد فراہم ہو سکے اور لاکھوں افغانوں کو شدید ضرورت کی اس پریشان کن گھڑی میں جائے امان میسر آسکے، پاکستان کا ’او۔آئی۔سی‘ کی وزرائے خارجہ کونسل کے افغانستان پر اس

غیرمعمولی اجلاس کی میزبانی کرنا اس قائدانہ کردار کے مطابق ہے جو پاکستان نے خطے میں ادا کیا ہے۔ہم چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی اب بھی میزبانی کرتے آ رہے ہیں،ہم نے افغانستان میں اجتماعیت کی حامل حکومت کی تشکیل کے حامی ہیں جس میں تمام نسلی اور مذہبی اقلیتوں سمیت خواتین کے حقوق کا احترام ہو، افغان حکومت نے اپنے تمام ہمسایوں کو یقین دلایا ہے کہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی،یہی پیغام کابل نے تمام خطے کے باہر کی قوتوں کو

بھی دیا ہے، کامیاب خارجہ پالیسی کے مستقبل کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ سٹرٹیجک غلطیاں نہ دوہرائی جائیں جو 1990 کی ابتدا میں ہوئیں جس کے نتیجے میں خانہ جنگی، قحط اور دہشت گردی کی لہریں اٹھیں اور جن کے اثرات کا سامنا گذشتہ تیس برس سے کیاجارہا ہے، دنیا کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا،بھارت کے بارے میں بات کئے بغیر خارجہ پالیسی مسائل کے بارے میں بات مکمل نہیں ہوتی،امن اور جیواکنامک کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستان کی کوششیں یک طرفہ نہیں ہوسکتیں، تالی

دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، اقتدار سنبھالتے ہی ہماری حکومت نے یک طرفہ طور پر بار بار کوشش کی تاکہ بات چیت کے ذرائع کْھلیں، اعتماد پیدا ہو اور بھارت سے ربط وتعلق ہو، ہمارے مشرقی ہمسایہ نے ہر قسم کی بات چیت کے لئے تمام دروازے بند کرنے کا انتخاب کیا، بھارت نے غیرقانونی طورپر مقبوضہ جموں وکشمیر کے متنازعہ خطے میں فوجی کشی کرتے ہوئے یلغار کی اور محاصرہ کرکے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں سے ان کا حق رائے شماری چھین لیا اور آج ان پر جبر واستبدادکے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،

غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں نئی دہلی کے اقدامات کشمیر میں بھارت کے وکیلوں اور بھارت کے غیرملکی دوستوں کے لئے بھی معمہ بن گئے ہیں، بھارتی مظالم اور جبر واستبداد اتنا کْھلا اور بہیمانہ وقابل مذمت ہے کہ جسے سیکولرازم اور جمہوریت کے خوش نما نعروں یا پردوں میں چھپایا نہیں جاسکتا، وزیر خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بے ضمیری اور بے حسی کی صورتحال پر بھارت کو جواب دہی کے لیے کٹہرے میں کھڑا کرے، بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ تنازعہ کشمیر کو حل کئے بغیر جنوبی ایشیاء کے لوگوں کو دائمی عدم استحکام سے نجات نہیں مل سکتی، اور امن وخوش حالی ایک بڑا چیلنج رہے گا، ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک عالمی وبائوں کی تباہ کاریوں سے خطرے میں ہیں، پاکستان میں ہم نے سمارٹ لاک ڈائون اور تیزی سے ویکسین لگانے کی مہم کے ذریعے کورونا کو شکست دینے میں اہم پیش رفت کی ہے، یہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے

، اوومی کرون کی نئی قسم کے سائے منڈلا رہے ہیں اور ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کررہے ہیں، ہر ملک کو انفرادی اور اجتماعی انداز میں اس وائرس کے مقابلے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ یہ مرض سرحدوں کو نہیں پہچانتا۔ ہم سب کو یکساں طور پر خطرے کا سامنا ہے، یہی معاملہ ماحولیاتی تبدیلی کا بھی ہے، یہ ہم سب کو بلاامتیاز متاثر کرتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اہداف کے حصول میں پاکستان ایک قدم آگے بڑھا ہے، کیونکہ یہ ایک قومی ضرورت اور ترجیح ہے، ایشیائی ترقیاتی

بنک اور ورلڈ بنک نے پیشگوئی کی ہے کہ آئندہ دو دہائیوں میں درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں پاکستان کو سالانہ 3.8 ارب ڈالر تک کا بوجھ اٹھانا پڑے گا گزشتہ ماہ ماحولیات پر سربراہی اجلاس ’کاپ 26‘ میں ورلڈ بنک کے تعاون سے پاکستان نے ایکوسسٹم بحالی کے اقدام (ای۔ایس۔آر) کا آغاز کیا ہے، وزیراعظم عمران خان کا دس ارب ٹری سونامی اور کلین گرین پاکستان کا وڑن اور روڈمیپ ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے مقابلے کے لئے پاکستان کو ایک مثالی ملک بنانے میں سنگ

میل ثابت ہوگا، پاکستان نے بین المذاہب ہم آہنگی اور تحمل وبرداشت کے فروغ کے لئے نمایاں کوششیں کی ہیں،وزیراعظم عمران خان نے اعلی ترین فورمز پر دنیا کو اسلاموفوبیا اور نسلی برتری کے گمراہ کن نظریات سے دنیا کے امن کو لاحق خطرات سے مسلسل خبردار کیا ہے، ہم نے 2020 میں نیامے میں ’او۔آئی۔سی‘ کی وزرائے خارجہ کونسل کے سینتالیسویں اجلاس میں قرارداد پیش کی جس میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے مقابلے کے عالمی دن کے طورپر منائے جانے کی تجویز دی گئی ،

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کے بعد کی دنیا میں، ہمیں ایسی سفارت کاری درکار ہے کہ جو روایتی طرز سے آگے بڑھ کر ہو، ایک ایسی سفارت کاری جہاں تعلقات جیو اکنامکس کی بنیاد پر تبدیل ہوتے ہیں ، ٹیکنالوجی کی رسائی اور استعمال، عوامی رابطے ڈیجیٹل ترقی کے باعث کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ

د و دن پہلے ڈپتی سیکرٹری سٹیٹ سے بات ہوئی انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات افغانستان سے بڑھ کر رکھنا چاہتے ہیں امریکی انتظامیہ کی سوچ میں مثبت تبدیلی آ رہی ہے اگرافغانستان پر توجہ نہ دی انسانی المیہ جنم لے گاافغانستان سے جو لوگوں کی یلغار نکلے گی پاکستان ایران قازقستان تک محدود نہیں رہے گی یورپ کے دروازوں پر دستک دے گی اوآئی سی کی خارجہ کونسل کا ون پوائنٹ ایجنڈا افغانستان کے ہیومین ٹیرین کرائسز ہے دنیا کو باور کرا رہے ہیں کہ آپ افغانستان کو غیر مستحکم کرنے

کی غلطی نہ کریں جن مقاصد کیلئے آپ نو گیارہ کے بعد گئے تھے وہ ناکام ہو جائیں گے ،دنیا چاہ رہی تھی کہ دہشت گردوں کو سپیس نہ ملے افغانستان غیر مستحکم ہوا تو سپیس مل جائے گی انسانی بنیادوں پر افغانستان میں عالمی انگیجمنٹ کا فیصلہ ہو چکا پی فائیو کے تمام ممالک کو دعوت دی ہے افغانستان کی عبوری حکومت کو بتایا کہ دنیا کو مطمئن کرنے کا موقع ہے ضائع نہ کریں ہم ان سے ایک رویے کا مطالبہ کر رہے ہیں افغانوں کا موقف بھی سننا ہو گا مجھے امید ہے دبیا اپنے وسیع مفقد میں ہمارے

نقطہ نظر سنے گی ہم نے افغانستان میں اپنے آپ کو محدود نہیں کیا ہم مختلف لوگوں سے رابطہ کر رہے ہیں ان کا نقطہ نظر سن رہے ہیں اپنا بتا رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان میں پاکستان کے حوالے سے سوچ بدل رہی ہے تعلقات میں کشیدگی کے باوجود بھارت سے افغانستان کو گندم بھجوانے کی انسانی بنیادوں پر اجازت دی پاکستان کا کوئی بلاک بنانے کا ارادہ نہیں پاکستان او آئی سی کا ممبر ہے پاکستان او آئی سی کے چارٹر سے متفق ہے دعوت قبول کرنے پر او آئی سی ممبر ممالک کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ امریکہ کو روس اور تیزی سے ابھرتے چین سے خطرات لاحق ہو ئے امریکہ کی جانب سے ایک غیر جمہوری و غیر سیکولر بھارت کی جانب جھکائو کیا گیاامریکہ نے اس حوالے سے بھارت سے متعلق ہر چیز کو نظر انداز کیا،امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے انداز نے اس خطے پر ایسے اثرات مرتب کیے جن کے ساتھ ہمیں رہنا پڑے گا،امریکہ کی جانب سے آسیان اور اس خطے ہر توجہ نے بہت سے ممالک کو اپنے مسائل کے حل کے لیے دور دراز ممالک کی

جانب دیکھنے پر مجبور کیاچین جو کچھ کر رہا ہے دیگر ممالک اس کو خطرہ سمجھ کر ردعمل دے رہے ہیںماضی میں ہم اور دیگر ممالک انفراسٹرکچر فنڈنگ کے لیے مدد مانگ رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کی افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی نے وہاں بہت دہشت گردوں کو جنم دیاہم نے طویل عرصہ تک افغانستان مین سویت موجودگی کے اثرات برداشت کیے اب ہم افغانستان کے امریکہ کے اسطرح سے انخلاء کے اثرات برداشت کر رہے ہیں9/11 کے انتقام میں

کیے گئے فیصلوں کے نتیجہ میں اس خطے میں لاکھوں افراد مہاجر بنے پاکستان کی جانب سے مختلف حکومتوں میں کہی گئی بہت سے چیزیں درست ثابت ہوئیں ہم نے ہمیشہ کہا کہ امریکہ کی جانب سے انسداد دھشت گردی مزید دہشت گردوں کو جنم دے رہی ہے پاکستان نے بارہا کہا کہ راتوں رات 3لاکھ فوج تیار نہ کی جائے وگرنہ وہ مختلف بلاکس میں بٹ جا ئیں گے ،کرپشن، گھوسٹ افواج، ٹھیکیداروں،

نااہل افغان حکومت اور امریکی ہوا ئی ا مداد پر انحصار کے باعث آج کے افغانستان کی وجہ بنی دنیا افغانستان میں ایک المیے کو روکنے کی بجایے اس کے جنم کا باعث بن رہی ہے۔سابق امریکی سفیر کیمرون منٹرنے کہا ہے کہ ا فغانستان پر او آئی سی کانفرنس پاکستان کی بطور براہ راست ہمسایہ ضرورت ہے جب تک پاکستان اپنی اندرونی حالت بہتر نہیں بناتا اس کی طاقت کا اظہار کمزور رہے گا۔ سابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ 2010 میں جب میں پاکستان میں سفیر تھا تو لوگ پوچھتے تھے کہ امریکہ نے

پاکستان میں سیلاب کیوں چھوڑااب ممالک اپنی گھریلو طاقت کے زریعہ اپنی بیرون ممالک طاقت کا اظہار کرتے ہیںجب تک پاکستان اپنی اندرونی حالت بہتر نہیں بناتا اس کی طاقت کا اظہار کمزور رہے گادیکھنا ہو گا کہ آپ دنیا سے روایتی سفارت کاری سے ھٹ کر کیسے معاملات کرتے ہیںدیکھنا ہو گا کہ کیسے آپ اپنے پالیسیوں کو مستقل بناتے ہیںجس لڑاٰ ئی کا ہمیں امریکہ میںسامنا ہے وہی لڑا ئی یہاں بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری باہمی مخالفتوں میں عالمی نظریات کا اہم کردار ہے افغانستان پر

او آئی سی کانفرنس پاکستان کی بطور براہ راست ہمسایہ ضرورت ہے پاکستان کی اپنی سفارت کاری میں زیادہ بہتر پیغامات بھیجنا ہوں گے بطور پاکستان کا دوست مشو رہ دیتا ہوں کہ دیکھیں پاکستان کیسے اس بہترین موقع کو دیگر ممالک سے روابط بڑھانے کے کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ اس موقع پر امریکی سابق نائب وزیر خارجہ رابن رافیل نے کہا کہ 9/11 کے بعد امریکہ غصے میں افغانستان میں اترامزاکرات خراب طرز حکمرانی پر پردہ نہیں ڈال سکے بالاآخر افغان حکومت گر گئی امریکہ کا افغانستان میں

فعال، تیز رفتار موجودگی کا ارادہ بدل گیاکابل حکومت فوری طور پر گر گئی آج افغانستان کو انسانی امداد کا بڑا چیلنج درپیش ہے لاکھوں افغانوں کی زندگیاں بچانا اس وقت ترجیح ہونا چاہیے سفارتی سطح پر افراتفری میں امریکی انخلاء کو ایک بڑے سفارتی دھچکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے باعث وہاں ایک طویل المدت مفاہمت کا موقع ملا ہے انسداد دہشت گردی تعاون طالبان سمیت تمام علاقاٰئی طاقتوں کے مفاد میں ہے ہم روسی فیڈریشن کی

جانب سے نیٹو کی توسیع کو ایک خطرے کے طور پر دیکھنے پر توجہ نہیں دے رہے مریکہ اور اتحادیوں کو دنیا میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلیوں ے تناظر میں اقدامات کی ضرورت ہے ۔امریکہ مین دیگر ممالک میں ٹھیکیداروں کے زریعہ مہنگے منصوبے روک دینا چاہئیںبھارت میں ہندو انتہا پسندی عروج پر ہے پاکستان بھی توہین رسالت کے مسائل سے دوچار ہے امریکہ کو اپنی سفارت کڑی پر نظر ثانی کرنا ہو گی بین الاقوامی تنازعات کے حل کے۔لیے سفارت کاری کو ہی واحد زریعہ بنانا چاہیے بین الاقوامی تنازعات

میں مسلح افواج کو ایک جانب رکھ دینا چاہیے ۔ چینی سفارتخانے کی ڈپٹی ہیڈ آف مشن پینگ چن یوٰی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی معیشت کورونا کے باعث چیلنجز سے دوچار ہوئی کورونا وبا نے فوری طور 264 ممالک کو متاثر کیاکورونا پر سیاست نے عالمی تعاون کو متاثر کیاعالمی معیشت کی بحالی کا عمل جاری ہے غربت، بھوک اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے اقوام متحدہ

موسمیاتی امیشنز کے خاتمے کی بات کرتا ہے تاہم فنڈنگ ابھی باقی ہے چین نے دنیا میں ویکسین کے حوالیسے عالمی تعاون کے فروغ کی حمایت کی ہے،چین کی۔معیثت مظبوط ہو کر دنیا کی ریڑھ کی ہڈی بن رہی ہے۔ روسی فیڈریشن کے سفیر دنیلا گنیش کا کہنا تھا کہ ہم عالمی انسداد دہشت اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کوشیشوں کو تسلیم کرتے ہیں جدید ہتھیاروں، آرٹی فیشل انٹیلی جنسی ، بہتر صلاحیت کے ہتھیاروں سے ہم دشمن کے حملے کا بہتر جواب دی سکتے ہیں تاہم دشمن کا

یہ حملہ کسی کمپیوٹر کی غلطی بھی ہو سکتا ہے ہمیں امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید و بہتر ہتھیاروں کی دوڑ میں کودنا بڑا وائرس کا خطرہ موسمیاتی تبدیلیوں و عالمی آفات سے زیادہ نہیں ہے۔ برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچین ٹرنر نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکی صدر آئزن ہاور نے کہا تھا کہ اگر مسائل کا حل نہ کر سکو تو انہیں بڑھا دوآج ہم دنیا میں مسائل کے حل میں ناکامی کے بعد مسائل کو عالمی بنا دیتے ہیںپاکستان کو اپنی تیزی سے بڑھتی آبادی کی جانب توجہ دینا ہو گیا ہے آئندہ 10 برس

میں سندھ طاس اپنے پانی میں 20 فیصد کمی کا سامنا کرے گاپاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں شامل ہے کورونا وبا اور اوومی کرون دنیا کو درپیش بڑے چیلنج ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم کئی برس سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیںاب برطانیہ، امریکہ یا کسی بھی ملک کے سفیروں کے سازشیں کرنے اور گریٹ گیم پر عمل کرانے کے دن ماضی کا حصہ ہیںآج کے سفیر عالمی تعاون اور روابط کے فروغ کی کوشیشوں کا حصہ ہیںشاہ محمود قریشی کی جیو پالیٹکس سے جیو اکنامکس پالیسی

کی شفٹ سے اختلاف نہیں ہے صنفی مساوات کے بغیر کوئی بھی ملک اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتا افغانستان پر ہمارے اہداف مشترکہ ہیں ہم مل کر دیگر شراکت داروں کو ساتھ لے کر افغانستان میں اہداف کے حصول کی کوشیش کر رہے ہیں ایک مستحکم اور کثیر الجہتی افغانستان ہی ہمارا ہدف ہے افغانستان مین کیش اور بنکوں کے کام نہ کرنے کے باعث مسائل کا سامنا ہے اسی طرح افغانستان کے امریکہ کی جانب سے منجمد اثاثہ جات کی عدم بحالی بھی بڑا چیلنج ہے پاک بھارت تناو میں کمی بیحد ضروری ہے دونوں ممالک مین تناو کسی کے حق میں نہیں ہو گا کشمیر کا مسٰلہ بات چیت اور عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنا بہتر ہے ۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ریکوڈک


’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…