اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکرپرسن جاوید چوہدری اپنے آج کے کالم کسی سے بھی نہیں میں لکھتے ہیں کہ پاکستان تاریخی بے روزگاری کا شکار ہے‘روزگار کی شرح ایک اور دس ہے‘ دس لوگوں میں سے ایک کماتا ہے اور نو کھاتے ہیں اور کمانے والوں کی ہمت بھی اب جواب دے رہی ہے اور بے روزگاری کی وجہ کیا ہے؟ بے ہنری اور
غیرکاروباری ماحول‘ ہم نے اس ملک میں کام کرنے والوں‘ روزگار دینے والوں اور کام یاب ہونے والوں کو گالی بنا دیا ہے‘ آپ اگر دہی بھلے کی ریڑھی بھی لگا لیں تو خاندان سے لے کر حکومت تک ہر شخص آپ کا مخالف ہو جائے گا‘ کوئی آپ کو دلاسا تک نہیں دے گا‘ ہم نے ملک میں آج تک لوگوں کو سکل نہیں سکھائی‘ ملک میں دس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں لیکن ڈرائیور تلاش کرتے ہیں تو بیس بیس سال ڈرائیور نہیں ملتا‘ ایوریج کک‘ مستری‘ الیکٹریشن اور پلمبر تک نہیں ہیں۔ایوان صدر کی ٹونٹیاں تک لیک کر رہی ہیں اور وزیراعظم بھی گندا کھانا کھا کر فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ملک میں مہنگائی کی حالت یہ ہے کھانے کا سامان اسٹاک ایکسچینج کی طرح اوپر نیچے ہوتا ہے اور پیچھے رہ گئی ریاست تو کورونا امدادی فنڈ میں کرپشن کی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ بھی آئی ایم ایف جاری کراتا ہے اور گورنر اسٹیٹ بینک ہو‘ سیکریٹری خزانہ ہو یا وزیر خزانہ ہو یہ سارے فیصلے اب آئی ایم ایف سے ہوتے ہیں‘ ملک میں پہلی مرتبہ
ایسی حکومت آئی ہے جس نے ملک کے ہر طبقے کو ہلا کر رکھ دیا‘ آپ ملک کا کوئی سیکٹر دیکھ لیں‘ آپ کو ہر دیوار کے پیچھے سے سسکیاں سنائی دیں گی لیکن ان سنجیدہ حالات میں سنجیدگی کا عالم یہ ہے ملک میں آڈیو آڈیو اور ویڈیو ویڈیو کا کھیل ہو رہا ہے۔ایک آڈیو آتی ہے اور جواب میں دوسری طرف سے بھی آڈیو آ جاتی ہے اور پورا ملک اس کے پیچھے
لگ جاتا ہے‘شنید ہے لندن سے چند مزید ویڈیوز بھی آ رہی ہیں‘ یہ ویڈیوز نومبر 2018 میں اس وقت بنائی گئی تھیں جب چیف جسٹس ثاقب نثار انیل مسرت کی دعوت پر ڈیم کے لیے فنڈ جمع کرنے کے لیے لندن گئے تھے‘ یہ مختلف اوقات میں جو کچھ فرماتے رہے لوگ وہ ریکارڈ کرتے رہے اور یہ اب کسی بھی وقت مارکیٹ میں ہوں گی جب کہ دوسری طرف
ایک ویڈیو تیار بیٹھی ہے جس میں شریف فیملی کے ایک اہم صاحب کسی فارم ہاؤس میں تنظیم سازی میں مصروف ہیں۔آپ ملک کے چیلنجز دیکھیں اور ریاست اور سیاست کے ایشوز ملاحظہ کریں چناں چہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہی نکلے گا جو ایسے حالات میں نکلا کرتا ہے لیکن مجھے افسوس اس نتیجے کا نہیں‘ مجھے افسوس ملک کے طاقتور عہدیداروں کے رویوں پر ہے‘ یہ لوگ کھلی آنکھوں سے چھپکلی کھا رہے ہیں اور ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ کیوں؟ اس کیوں کا فیصلہ بہرحال مورخ لکھے گا اور مورخ اب زیادہ دور نہیں ہے‘ اللہ اس ملک کی حفاظت کرے ملک تقریباً ہاتھ سے نکل چکا ہے۔