اسلام آباد(آن لائن)جمعیت علمائے اسلام(ف) اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر میں وزیر اعظم کا اختیار حسن کی حد تک ہے اور ہمارے ملک کے منظم ادارے کو جو نقصان ان چند دنوں میں وزیراعظم نے پہنچایا ہے، پاکستان کے دشمن بھی اس ادارے کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بد ھ کے روز ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کے گھر آمد اور انکے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس دنیا میں بڑے لوگ ایک مشن، ایک نصب العین لے کر آتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان یقیناً ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں اور ڈاکٹر صاحب ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جو اپنا مشن پورا کرکے دنیا سے گئے ہیں اور انہوں نے پاکستان اور پاکستانی قوم کو بہت کچھ دیا ہے، اللہ رب العزت ان کی خدمات کو اپنے دربار میں قبول فرمائے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر جاری کشمکش کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ لمحہ با لمحہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے، ہمیں فکر اس بات کی ہے کہ پاکستان کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور ہمارے ملک میں فوج ایک واحد منظم ادارہ ہے جو عوام کی آخری امید ہوا کرتی ہے۔ ایک سوا ل پر ا نہوں نے کہا کہ مسئلہ ڈی جی آئی ایس آئی کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ ایک لیفٹیننٹ جنرل کے بطور ڈی جیآئی ایس آئی تقرر کا ہے، لیفٹیننٹ جنرل براہ راست چیف آف آرمی اسٹاف کے ماتحت ہے اور اس کی خدمات اور تعین اس کے باس نے کرنا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں چونکہآ ئی ایس آئی کے حوالے سے کوئی ایکٹ موجود نہیں ہے اور ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بعض دفعہ ہم اس کو کہتے ہیں کہ یہ حسن کی حد تک ہے،
یہ اختیار اس حد تک نہیں کہ کوئی اس پر ڈٹ جائے اور کہے کہ میں سمری پر دستخط نہیں کروں گا، میں نوٹیفکیشن جاری نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے حکمران نے جہاں پورے ملک کو برباد کیا ہے، معاشی لحاظ سے برباد کیا ہے، عام آدمی کراہ رہا ہے، اسی طرح ہمارے ملک کے منظم ادارے کو جو نقصان ان چند دنوں میں
اس نے پہنچایا ہے شاید پاکستان کو دشمن اس ادارے کو اتنا نقصان نہ پہنچا سکے۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہماری دعا ہے کہ صورتحال بہتر ہو جائے اور ملک بہتری کی طرف جائے لیکن ہر ادارے کو اب یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ یہ حکمران پاکستان کو ڈبونے کے لیے آ ئے ہیں اور پاکستان کو ترقی دینے کے لیے نہیں آئے۔
سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ جس طرح صدارتی طرز حکمرانی میں فیصلے پارلیمنٹ کرتی ہے، ایگزیکٹو چیف وزیر اعظم ہوتا ہے لیکن حسن کے لیے فائنل ایوان صدر بھی جاتی ہے اور صدر کے بھی اس پر دستخط آ جاتے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جیسے وہ ہر چیز پر جاہلانہ انداز میں اڑ جاتے ہیں،
بالکل اسی طرح یہاں بھی ان کا انداز بالکل ان پڑھ لوگوں کا ہے، اس میں کوئی معقولیت نہیں ہے، لیفٹیننٹ جنرل آرمی چیف کے ماتحت ہے اور اس کی خدمات کا تعین انہوں نے ہی کرنا ہوتا ہے، فوج کے دائرہ کار میں وزیر اعظم کی اس حد تک مداخلت کہ ملک کا نظام ہی جام ہو جائے، مناسب نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جو شخص اس ملک
میں یونٹی آف کمانڈ کا ذمے دار ہے، اس نے کمان کا بیڑا غرق کردیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا مستقل موقف ہے کہ آئین نے جس کا جو دائرہ اختیار متعین کیا ہے، اسی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے جب ہم اپنا کردار ادا کریں گے تو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، اگر مشکل پیش آئی ہے تو یہی آئی ہے کہ پارلیمنٹ کے اختیار میں کسی اور
نے مداخلت کی ہے، فوج کے اختیار میں کسی اور نے مداخلت کردی ہے تو اس سے مشکلات تو آتی ہیں، ہمیں اس مشکل سے بہت عقلمندی سے نکلنا ہو گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا ہمیشہ سے مطالبہ تھا کہ فوج حکومت کا ساتھ چھوڑ دے تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ آ پ کا مطالبہ تسلیم ہو گیا ہے تو مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا کہ
تکنیکی طور پر معاملہ شاید ادھر ہی چلا جائے۔ قبل ازیں سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کے گھر پہنچے۔ سینیٹر طلحہ محمود بھی مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ موجود تھے۔مولانا فضل الرحمان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لئے دعا مغفرت و فاتحہ خوانی کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کے داماد نعمان شاہ نے مولانا فضل الرحمان کا استقبال کیا۔