سی پیک کے تحت زیادہ تر قرضے کمرشل ریٹ پر حاصل کیے گئے ہیں، امریکی ادارے کا انکشاف

30  ستمبر‬‮  2021

واشنگٹن(این این آئی)امریکی ادارے نے کہاہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک)کے تحت چینی ترقیاتی فنانسنگ کا ایک بڑا حصہ ایسے قرضوں پر مشتمل ہے جو گرانٹس کے برعکس کمرشل ریٹ پر ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ ریسرچ لیب کی رپورٹ میں بیجنگ کے عالمی ترقیاتی پروگرام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ

سی پیک کے تحت چینی قرضے توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بالترتیب 95.2 فیصد اور 73 فیصد ہیں۔چین نے 2000 اور 2017 کے درمیان پاکستان کے لیے 34.4 ارب ڈالر کے ترقیاتی فنانس کا وعدہ کیا۔اسلام آباد، چین کے بیرون ملک ترقیاتی فنانسنگ کا 7واں سب سے بڑا وصول کنندہ ہے اور اس وقت 27.3 ارب ڈالر مالیت کے 71 منصوبے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ 13.2 سال کی میچورٹی کے ساتھ اوسط قرض کے لیے شرح سود 3.76 فیصد ہے (جب سود کے ساتھ مکمل ادائیگی باقی ہے)اور 4.3 سال کی رعایتی مدت شامل ہے۔اس کے علاوہ رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ پاکستان نے چین کے تمام ترقیاتی فنانس کا تقریبا آدھا حصہ برآمد کنندہ کے کریڈٹ کی شکل میں حاصل کیا ہے۔چین کی جانب سے پاکستان کو 40 فیصد قرضے دینے کا حکم سرکاری کمپنیوں، سرکاری بینکوں، خصوصی مقاصد کی گاڑیوں، مشترکہ منصوبوں اور نجی شعبے کے اداروں کو دیا گیا ہے۔رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ یہ چینی قرضے حکومت کے کھاتے میں ظاہر نہیں کیے گئے۔رپورٹ کے مطابق حکومت نے کچھ معاملات میں خود مختار ضمانتیں جاری کی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ اگر غیر سرکاری قرض دہندگان اپنی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے مناسب آمدنی پیدا کرنے میں ناکام رہے تو قومی خزانہ قرضوں کی ادائیگی کرے گا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ دوسری صورت میں حکومت نے قرض لینے والوں کو

ایکویٹی پر ضمانت کی واپسی فراہم کی ہے، اس قسم کی گارنٹی موثر طریقے سے چین پر چھپے ہوئے قرض کی ایک شکل ہے، یہ مالی انتظامات حکومت کے لیے پرکشش ہیں کیونکہ انہیں عوامی قرضوں کے طور پر ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، عوامی قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 92.8 فیصد ہے۔چینی سرمایہ کاری حکومت

کے لیے پوشیدہ قرض ہونے سے متعلق تنقید کے جواب میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک امور خالد منصور نے کہا کہ سی پیک کے تمام منصوبے مکمل طور پر شفاف ہیں اور ان میں کوئی پہلو پوشیدہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام منصوبے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)سے منظور شدہ ہیں، سب کچھ عیاں

ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نیپرا اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے)کی ویب سائٹس چینی فنانسنگ سمیت تمام منصوبوں کی سرمایہ کاری کے اخراجات کو ظاہر کرتی ہیں جس میں کوئی پوشیدہ قرض شامل نہیں ہے۔خالد منصور نے کہا کہ حال ہی میں منعقدہ 10ویں مشترکہ تعاون کمیٹی (ـجے سی سی)کے اجلاس کے بعد ملک زراعت

اور آئی ٹی شعبوں میں چین کی مہارت کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم زراعت کے لیے نئے تحقیقی مراکز قائم کر رہے ہیں، ہم چین کی مدد سے اپنی پیداوار اور بیج کے معیار کو بہتر بنانے جارہے ہیں۔خالد منصور نے مزید بتایا کہ ہم بہت سے مختلف علاقوں میں مرکوز انداز میں کام شروع کرنے والے ہیں۔

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…