کرا چی(آن لائن) وزیر اطلاعات و محنت سندھ و صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی نے کہا ہے کہ ووٹوں کے اعتبار سے پیپلز پارٹی کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں کراچی میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ دو روز قبل وفاقی وزراء اسد عمر، علی زیدی اور دیگر نے کراچی میں پریس کانفرنس کرکے جو الزامات سندھ حکومت پر لگائے ہیں وہ سراسر غلط ہیں۔
وفاقی حکومت نے کراچی سمیت سندھ بھر میں گذشتہ 3 سال کے دوران ایک بھی بڑا منصوبہ نہیں بنایا ہے اور جن منصوبوں کا وہ دعوی کررہے ہیں وہ سابقہ حکومتوں کے ہیں۔ مردم شماری میں صوبائی حکومت کی کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں تھی بلکہ پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے، جس نے مردم شماری شروع ہونے سے قبل ہی اس کے طریقہ کار پر اعتراض کیا تھا اور آخر دم تک مردم شماری کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز اپنے کیمپ آفس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی، جاوید ناگوری، نجمی عالم، آصف خان، خلیل ہوت،، عدیل اختر، اقبال ساندھ، نوید بھٹی اور دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ گذشتہ روز کنٹونمنٹ بورڈ کے کراچی کے 6 کنٹونمنٹ بورڈ میں پیپلز پارٹی نے تمام سیاسی جماعتوں کے مقابلے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے اور وہ اس طرح کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے 6 کنٹونمنٹ میں 39 امیدواروں نے مجموعی طورپر 22135 سے زائد ووٹ حاصل کئے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والی پی ٹی آئی نے 42 امیدواروں نے 19483 ووٹ، جماعت اسلامی نے 16422 جبکہ کراچی کی دعویدار ایم کیو ایم صرف 10790 ووٹ ہی حاصل کرسکی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے،
جس نے 6 کے چھ کنٹونمنٹ بورڈ میں نشستیں حاصل کی اور ہمیں 11 نشستوں پر کامیابی ہوئی جبکہ ہمارے تین ایسے امیدوار ہیں جن کے کامیاب ہونے والے سے ووٹوں میں صرف 1 سے 3 ووٹوں کا فرق ہے اور اس پر ہم دوبارہ گنتی کی درخواست دے رہے ہیں کیونکہ وہاں مسترد ووٹوں کی تعداد 12 سے 16 کے درمیان ہے۔ سعید غنی
نے کہا کہ سب سے بڑے اور اہم کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ جس پر پی ٹی آئی نے ہمیشہ دعوہ کیا ہے کہ وہ ان کے ووٹرز ہیں وہاں سے 4 نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ وہاں سے پی ٹی آئی کو 2، جماعت اسلامی کو 2 اور 2 امیدوار آزاد کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو دو امیدوار پی ٹی آئی کے کامیاب ہوئے ہیں ان کے زیادہ سے زیادہ ووٹ
501 ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے کم سے کم ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے امیدوار کے ووٹ بھی 720 سے زائد ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف اگر ہم کلفٹن کنٹونمنٹ کی بات کریں، جس کو ہمیشہ پی ٹی آئی اپنا گڑھ بتاتی آئی ہے اور اسی علاقے سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں سے صدر پاکستان اور گورنر سندھ کامیاب ہوئے
ہیں، وہاں سے پیپلز پارٹی کو 9331 ووٹ ملیں ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی کو 6254 ووٹ اور تیسرے نمبر پر پی ٹی آئی ہے، جس کو 5079 ووٹ ملے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ اگر کراچی میں مجموعی طور پر کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کو دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے، جس کو سب سے زیادہ
ووٹ اور تمام کنٹونمنٹ میں نشستیں ملی ہیں اوریہ ہمارے اس دعوے کو ثابت کرتی ہے کہ کراچی میں پیپلز پارٹی نے جو کام کئے ہیں اس کو عوام سراہتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ گذشتہ روز اسد عمر، علی زیدی سمیت دیگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کے دوران الزامات لگائے کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاق کے تحت ہونے
والے ترقیاتی کاموں کی مخالفت کی ہے، جو مکمل طور پر غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں وفاق کی جانب سے ان کے ایم این ایز کی جانب سے کام کروانے پر اعتراض نہیں بلکہ ان کے طریقہ کار پر اعتراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان سے بارہا کہا ہے کہ وفاق ضرور کام کروائے لیکن جس محکمہ کا وہ کام کروانا
چاہتے ہیں متعلقہ صوبائی محکموں کولازمی مطلع کریں تاکہ کام میں شفافیت اور کرپشن نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ صرف عوام کو دکھانے کے لئے پانی اور سیوریج کی لائنوں کو بچھانے سے ان میں پانی یا سیوریج شروع نہیں ہوسکتا بلکہ واٹر بورڈ کے نیٹ ورک سے ان کو منسلک کرنے سے یہ کام مکمل ہوسکتا ہے، اسی طرح کوووڈ کے
متاثرین کی امداد کا خود صوبائی حکومت نے وفاق سے مطالبہ کیا تھا لیکن جو طریقہ کار انہوں نے اختیار کیا اور ہزاروں افراد کو ایک جگہ جمع کرنا شروع کیا اس پر ہم نے اعتراض کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ آپ بھیڑ لگانے کی بجائے ان لوگوں کے براہ راست اکاؤنٹس میں پیسہ ٹرانسفر کردیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت واحد صوبائی
حکومت ہے، جس نے بجٹ میں ویکسینیشن کے لئے بجٹ رکھا اور ہم نے وفاق سے متعدد بار مطالبہ کیا کہ کیونکہ وہ خود ویکسینشن منگوا رہے ہیں ہمیں قیمت بتادیں تاکہ ہم منگوا سکیں باقی وفاق نے سندھ کے عوام پر کوئی احسان نہیں کیا ان کو ویکسنیشن دے کر کیونکہ یہ صرف سندھ نہیں بلکہ تمام صوبوں کو فراہم کئے گئے ہیں اور سندھ کو
اس کا آئینی اور قانونی حق دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسد عمر نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران جو بھی باتیں سندھ حکومت اور وزیر اعلیٰ سندھ کے حوالے سے کہی وہ تمام حقائق اور سچ کے منافی کہی ہیں اور انہوں نے تمام باتوں کو توڑ مڑور کر پیش کیا ہے، جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے
گذشتہ 3 سالوں کے دوران کوئی ایک منصوبہ سندھ کے لئے شروع نہیں کیا ہے اور جس گرین لائن، کے فور، کے سی آر اور دیگر کا دعوہ کررہے ہیں، وہ ماضی کی حکومتوں کے منصوبے ہیں اور وہ بھی ان 3 سالوں میں انہوں نے مکمل نہیں کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری سندھ حکومت نے نہیں بلکہ وفاقی حکومت نے فوج کے ساتھ
مل کر کی تھی اور جس وقت یہ مردم شماری شروع ہونی تھی اس وقت ہم نے خط لکھ کر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا اور آج بھی پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے، جس نے مردم شماری پر مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اس ایشو کو اٹھایا اور ہم نے اس کو پارلیمنٹ میں لے جانا کا مطالبہ کیا ہے۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب
میں وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد بھی وفاق نے کئی محکمہ جبری طور پر اب تک اپنے پاس رکھیں ہیں، جس میں ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر بورڈ، انفارمیشن کی ریگولیٹری اتھارٹی و دیگر شامل ہیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی پی ٹی آئی حکومت کی ایک اور
واردات ہے اور اس کے ذریعے میڈیا کو ملنے والی تھوڑی بہت آزادی کو بھی سلب کرنا چاہتی ہے، جس طرح انہوں نے آزاد عدلیہ، ججز اور دیگر اداروں کو وہ جس طرح اپنے قابو میں کرنا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ صحافت اور صحافی بھی ان کے خلاف بات نہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اس طرح کے وفاق کے
مضموم مقاصد کے خلاف صرف مذمت نہیں بلکہ مزاحمت کرے گی اور ہم اس طرح کے کسی اقدامات کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ میں بحثیت ایک سیاسی کارکن یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں جہاں بھی ووٹرز کا ٹرن آؤٹ زیادہ ہوتا ہے وہاں شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم نے ایک ڈھول پیٹا ہوا تھا کہ کراچی کے عوام ان کے ساتھ ہیں، کنٹونمنٹ کے انتخابات کے بعد اسی کراچی
کے عوام نے ان کے منہ پر دماچہ دے مارا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ عوامی رائے کا اظہار ووٹوں سے ہوتا ہے، وہ چاہے ضمنی انتخابات ہوں، کنٹونمنٹ کے انتخابات ہوں یا اور کوئی انتخابات ہوں اور جس طرح کراچی سمیت سندھ بھر کے عوام نے 2018 کے انتخابات کے بعد ہونے والے ضمنی اور کنٹونمنٹ کے انتخابات میں پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی پول کھولی ہے اور جس طرح پیپلز پارٹی کو سراہا ہے، یہ حقیقی عوامی رائے ہے۔