لاہور( این این آئی)مسلم لیگ(ن) پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے پنجاب حکومت کی تین سالہ کارکردگی کیخلاف وائٹ پیپر جاری کردیا،تین سالوں میں پنجاب کے چھ آئی ،چار چیف سیکرٹری تبدیل،درجنوں محکموں کے سیکرٹری پانچ مرتبہ سے زائد تبدیل ہوئے،بزدار حکومت نے شہبازشریف دور کے بنائے کالجز پر یونیورسٹیوں کی تختیاں لگائیں،پنجاب حکومت نے شہداء کے
ورثاء کے لئے 15کروڑ مختص کی لیکن ایک پائی بھی نہ دی،خواجہ سرائوں کیلئے 20 کروڑ مختص کیے لیکن 75فیصد رقم خرچ نہیں کی،رمضان بازاروں میں 82کروڑ 18لاکھ کے اضافی اخراجات کیے،رواں سال پنجاب حکومت نے دو کھرب 48ارب کے اضافی اخراجات کیے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ماڈل ٹائون پارٹی سیکرٹریٹ میں مسلم یگ(ن) کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عطاء تارڑ اور حناپرویز بٹ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔عظمیٰ بخاری نے مزید کہا پنجاب میں سرکاری سکولوں میں 88ہزار 885اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں۔تین سالوں میں ہزاروں خالی اسامیوں پر بھرتیوں کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔پنجاب حکومت سپلیمنٹری گرانٹ نہ دینے کا دعوی بھی جھوٹ ثابت ہوا ہے۔محکمہ داخلہ پنجاب کو 2ارب اور وزیراعلی آفس نے 21کروڑ 14لاکھ کے اضافی اخراجات کیے۔بزدار حکومت اس سال اپنا تاریخی ترقیات کا بجٹ دے کر بھی مسلم لیگ ن کا مقابلہ نہیں کرسکی۔اس سال بزدار حکومت نے ترقیاتی بجٹ 560ارب کا دیا جبکہ مسلم لیگ(ن) کا آخری بجٹ 2017-18میں 635ارج کا ترقیاتی بجٹ دیا جو استعمال بھی ہوا۔عثمان بزدار کے حکم پر تحصیل کوہ سلیمان اور تحصیل تونسہ میں بدوبست اراضی کا حکمنامہ جاری کیا گیا لیکن پھر پرسرار طور پر محافظ خانہ کو آگ لگ گئی جس کی بعد میں انکوائری اور اس میں بھی تضادات ہیں۔
پنجاب حکومت نے 248ارب کے جمنی اخراجات کیے۔وی آئی پی فلائٹ پر مختص بجٹ سے ہٹ کر ایک کروڑ 50لاکھ روپے اور بلٹ پروف گاڑی کی خریداری کیلئے دو کروڑ پچاس لاکھ روپے خرچ کیے۔جبکہ سیکرٹ فنڈ کیلئے مختص بجٹ سے ہٹ کر ایک کروڑ روپے اضافی خرچ کیے گئے۔ایئرکرافٹ کی خریداری کیلئے ایک کروڑ
پچاس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔پنجاب اسمبلی کو چار کروڑ روپے اضافی دیے گئے۔چولیستان ریلی کو کامیاب بنانے کیلئے پچاس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔جنوبی پنجاب میں افسران کی رہائشگاہوں کیلئے دو ارب آٹھ کروڑ ستر لاکھ روپے کی رقم خرچ کی گئی۔ایک اعلیٰ افسر کی رہائشگاہ کیلئے جنریٹر خریدنے کیلئے ایک کروڑ 12لاکھ روپے
خرچ کیے۔انہوں نے مزید کہا دستاویز کے مطابق وزیراعلیٰ آفس نے اپنے بجٹ 35فیصد زائد رقم خرچ کی۔وزراء اور مشیروں کیلئے مختص بجٹ کے مقابلے میں 30کروڑ دو لاکھ روپے کا بجٹ خرچ کیا گیا۔وزراء نے پروٹوکول اور تنخواہوں کی مد میں دو کروڑ 97لاکھ روپے وصول کیے۔عثمان بزدار کے تین سال صرف افسران کے تبادلوں
کے ریکارڈ قائم کیے گئے۔پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے اتنے بڑے پیمانے پر افسران کی تبادلے کیے۔کسی افسر کی تعیناتی تین سے چار ماہ سے زائد تک نہیں ایک محکمے میں رہ سکی۔مسلم لیگ ن ایک افسر کو دو سے تین سال ایک عہدے پر کام کرنے کا موقع دیتی تھی لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے تین سالوں میں چھ آئی
جی پنجاب ،چار چیف سیکرٹری اور چھ کمشنر لاہور تبدیل کیے۔ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے عہدے پر چھ افسران تبدیل ہوئے،سیکرٹری سپیشلائز ہیلتھ کیئر چار تبدیل ہوئے،محکمہ پرائمری ہیلتھ کے بھی چار سیکرٹری تبدیل،محکمہ سکولز ایجوکیشن کے بھی چار سیکرٹری تبدیل ہوئے۔محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے 13سیکرٹری تبدیل ہو
چکے ہیں تاحال ایک دوسرے افسر کو ایڈیشنل چارج دیا گیا ہے۔محکمہ لائیو سٹاک کے چار سیکرٹری،جبکہ لاہور کے چھ ڈی سی تبدیل ہو چکے ساتواں ڈی سی دو روز قبل تبدیل ہوا ہے۔جبکہ مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنر اور اسٹنٹ کمشنر لاتعداد مرتبہ تبدیل ہوئے۔انہوں نے مزید کہا پنجاب میں گیارہ سو ہیلتھ ورکرز کورونا کا شکار ہوئے۔
جن میں 625ڈاکٹر،307پیرا میڈیکل سٹاف اور 168نرسز کورونا کا شکار ہوئی۔طبی عملے کو حفاظتی کٹس اور این 95ماسک نہ مل سکے۔پنجاب حکومت نے مئی 2021کو رونا ویکسین خریدنے کا فیصلہ کیا ۔جس کیلئے دو کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا ایک کمپنی نے زائد بولی دوسری کمپنی نے چھ ارب روپے دس لاکھ ڈوز کے مانگے
لیکن بزدار حکومت نے ویکسین کی خریداری کیلئے صرف ڈیڑھ ارب روپے رکھے۔لاہور میں سروسز ہسپتال،جنرل ،میو ہسپتال ،جناح ہسپتال اور مزنگ ہسپتاک میں پندرہ سو ویکسین غائب ہوئی ،جن کی تحقیقات ابھی تک نہیں ہوسکی۔عثمان بزدار حکومت تین سالوں میں 21یونیورسٹیاں بنانے کا فلاپ ڈرامہ ہوگیا ہے۔کسی ایک
یونیورسٹی کی نئی بلڈنگ تعمیر نہیں کی پہلے سے تعمیر شدہ کالجز کو یونیورسٹیز کا درجہ دیا گیا۔گورنمنٹ کالج ساہیوال پر یونیورسٹی کی تختی لگائی گئی۔ملتان ایمرسن کالج پر یونیورسٹی کی تختی لگائی گئی۔بابا گورونانک یونیورسٹی نوازشریف نے بنانے کا اعلان کیا اور منصوبے کا افتتاح بھی کیا اور رقم بھی دی۔جھنگ کالج پر
یونیورسٹی کی تختی لگائی۔میانوالی میں سوگودھا یونیورسٹی کا سب کیمپس تھا جس کو میانوالی یونیورسٹی کا نام دے دیا گیا۔مری میں کوہسار کالج پر یونیورسٹی کی تختی لگائی گئی۔ فاطمہ جناح یونیورسٹی مسلم لیگ(ن) نے 1999میں بنائی۔چکوال میں شہبازشریف نے یو ای ٹی کا سب کیمپس بنایا جس پر اب یونیورسٹی آف چکوال کی تختی
لگادی گئی ہے۔پنجاب میں کرپشن،مالی بد انتظامی 56 ارب 46 کروڑ کا نقصان ہوا،اورنج لائن ٹرین سمیت دیگر منصوبوں میں 268ارب روپے کے اخراجات کا ریکارڈ غائب کردیامردہ پنشنروں کا کروڑ کی ادائیگیاں پکڑی گئیں،گھوسٹ ملازمین ،جعلی شناختی کارڈز پر ادائیگیوں کا بھی انکشاف ہوا،وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے قرآن بورڈ
تک میں بلا اشتہار غیر قانونی بھرتیاں کی۔ محکمہ پولیس اور جیل خانہ جات میں وردیوں کی کی خریدرایوں میں کرپشن،ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر سے اربوں کی غیر قانونی ٹھیکیدئیے گئے۔سنٹرل پنجاب میں اٹک سے اوکاڑہ تک کی ضلعی ہیلتھ اتھارٹیوں میں صوبائی خزانے کے 56 ارب 46 کروڑ روپے کرپشن،مالی بدانتظامی،فراڈکیا گیا۔
پنجاب کے غیر ترقیاتی اخراجات کے بارے میں آڈٹ رپورٹ 21-2020ء صرف 12 فیصد (194 ارب روپے)کی چھان بین کرسکی ہے جن میں سے 87 ارب کا ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا ۔محکمہ خزانہ نے صوبائی ملازمین کے جی پی فنڈ اور پنشن فنڈز کی سرمایہ کاری سے متعلق اربوں روپے کا ریکارڈ بھی پیش نہیں کیا۔
محکمہ زراعت میں 5 ارب روپے کے اخراجات پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے جن میں سے 1 ارب روپے غیر قانونی خریداریوں کی مدمیں ہے۔سیکرٹری زراعت کے دفتر میں 1 کروڑ 31 لاکھ روپے فراڈ اور 5 کروڑ 20 لاکھ 23 کنٹریکٹ افسروں کو بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لئے دیدئیے گئے جن کی واپسی کی کوئی ضمانت نہیں۔محکمہ
خوراک میں گندم کے خالی پولی پراپلین اور جیوٹ تھیلوں کی خریداریوں میں 5 ارب 52 کروڑ کے نقصان سمیت 34 ارب روپے کرپشن،اور بند انتظامی کی نذر ہوئے ہیں۔محکمہ ہائر ایجوکیشن کے زیر انتظام پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیہ یونیورسٹی بہالپور تک میں گورنر پنجاب کی منظوری کے بغیر سپیشل تخواہوں،اعزازئیے،اور الاؤنسز
اور دیگر اخراجات میں 6 ارب 31 کروڑ روپے کے غیر قانونی ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔محکمہ داخلہ کے زیر انتظام پولیس اور جیل خانہ جات ڈیپارٹمنٹس میں بھی 21 ارب 46 کروڑ روپے کے اخراجات میرٹ سے کر کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔آلات کی مرمت کے ٹھیکوں اور خریداریوں میں غیر شفافیت اور پیپرا رولز کی خلاف
ورزیوں سے 5 ارب 72 کروڑ روپے کا نقصان کیا گیا ہے۔محکمہ اطلاعات میں 93 کروڑ 70 لاکھ روپے کے اخراجات۔ان اعترضات میں پنجاب آرٹ کونسل کے ملازمین کو غیر قانونی الاؤنسز کی ادائیگی،محکمے میں غیر قانونی بھرتیوں مختلف معاہدوں میں غیر شفافیت شامل ہے۔محکمہ لائیو سٹاک میں ڈی ٹی ایل کے بغیرجانوروں کی
ادویات کی خریداریوں،بغیر اشتہار بھرتیوں،سرکاری زمین کے پٹے داروں سے عدم وصولی کے باعث 2 ارب 20 کروڑ سے زائد نقصان کی نشاندہی کی گئی ہے۔محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ میں مجموعی طور پر26 ارب روپے کے قابل اعتراض اخراجات کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں سے 11 ارب 67 کروڑ کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا
گیا ۔محکمہ سروسز ایندجنرل ایڈمنسٹریشن کے زیر انتظام ڈپٹی کمشنر دفاتر مجموعی طور پر 17 ارب روپے کے اخراجات پر سوالیہ نشان لگا گیا ہے جن میں سے 14 ارب 36 کروڑ کا ریکارڈ چھپا لیا گیا۔مضان بازاروں کے انتظامات کے ٹھیکوں اور غیر قانونی بھرتیوں سے 2 ارب 20 کروڑ روپے کا نقصان پنجاب کے خزانے کو پہنچایا
گیا ہے۔ نیشنل بنک کی 4 برانچوں باغبانپورہ ،نیو مسلم ٹاؤن ،سول سیکریٹریٹ اور علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں فوت شدہ پنشنروں کے اکاؤنٹ میں 3 کروڑ 52 لاکھ روپے منتقل کئیگئے جو واپس صوبائی خزانے میں نہیں آئے۔محکمہ اوقاف کے آڈٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بغیر اشتہار غیر شفاف بھرتیاں کی گئیں جن کے تحت تنخواہوں کی مد میں
23 لاکھ 37 ہزار روپے کے اخراجات غیر قانونی ہیں۔محکمہ مواصلات تعمیرات کے اہلکاروں نے ٹال ٹیکس کے ٹھیکوں کی مد میں 1 ارب 18 کروڑ جبکہ مختلف شہروں کی دویلپمنٹ اتھارٹیز اور واٹر اینڈ سیی ٹیشن ایجنسیوں نے ایکوافائر (پانی) کے چارجز کی مد اور کمرشلائزیشن فیس کی مدات میں 1 ارب 9 کروڑ کا نقصان کیا ہے۔آڈیٹر
جنرل پاکستان کی سنٹرل پنجاب کے اٹک سے اوکاڑہ تک 19 اضلاع کی صحت اتھارٹیوں کی رپورٹ برائے آڈٹ سال 21-2020 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 20-2019ء کے دوران ان اتھارٹیوں کے کل 31 ارب 68 کروڑ کے اخراجات میں سے 16 ارب 89 کروڑ (53 فیصد) کا آڈٹ کیا گیا جس میں 4 ارب 29 کروڑ(25فیصد)
اخراجات کرپشن،غیر قانونی بھرتیوں،ڈیوٹی سے غائب ڈاکٹروں کوتنخواہوں اورسپیشل الاؤنسز کی ادائیگیوں ،ادویات کی زیادہ ریٹیس پر لوکل خریداریوں سے 1 ارب 55 کروڑ کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔لاہور کی ضلع صحت اتھارٹی کے بارے میں آڈیٹروں نے بتایا ہے کہ 69 کروڑ 50 لاکھ روپے کے اخراجات قابل اعتراض ہیں۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ
جولائی 2019ء سے جون 2020ء کے ریکارڈ میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر لاہور کینٹ میں 134 عارضی ملازمین کو 6 ماہ کی تنخواہ کی مد میں 60 لاکھ روپے ادا کئیگئے لیکن جن کو ادئیگیاں کرنے کا دعویٰ کیا گیا نادرا کی ریکارڈ میں ان کی شناختی کارڈز جعلی نکل آئے جبکہ ادئیگیوں کی کلیم واؤچرز بھی بوگس ثابت ہوگئے۔اتھارٹی کے حکام کو 26 نومبر 2020ء کو اس سکینڈل سے آگاہ کیا گیا جس پر آڈیٹروں کا بتایا گیا کہ انکوائری کراکے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔