واشنگٹن(آن لائن )امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا خطرناک مرحلے میں داخل ہے ، امریکہ کابل میں دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف اپنے ڈرون حملے میں افغان شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات کر رہا ہے، ان اطلاعات کو کافی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق پینٹاگون ترجمان نے افغانستان سے امریکی انخلاء پر میڈیا
بریفنگ کے دوران اس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کے گرد کتنے دروازے لوگوں کی آمد کے لیے کھلے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمیشہ سے ایک خطرناک آپریشن رہا ہے لیکن ہم خاص کر ابھی ایک خطرناک وقت سے گزر رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا ہے کہ افواج کے مسلسل انخلا کے دوران امریکہ کے پاس ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ عام لوگوں کی واپسی کا آپریشن بھی جاری رکھ سکے۔تاہم انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا طالبان کی جانب سے دی گئی 31 اگست کی ڈیڈلائن کے دن بھی مزید پروازیں روانہ کی جائیں گی۔ڈرون حملے میں شہری ہلاکتوں پر جان کربی کا کہنا تھا کہ ’اس دنیا میں کوئی بھی فوج شہری آبادی کی ہلاکت روکنے کے لیے امریکی فوج سے زیادہ محنت نہیں کرتی۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کسی معصوم شخص کی جان لی جائے۔’ہم اسے بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور جب ہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری کارروائی کے دوران ایک معصوم جان لی گئی ہے، ہم اس کی شفاف تحقیقات کرتے ہیں۔‘انھوں نے اس انٹیلیجنس معلومات کا دفاع کیا ہے کہ کابل ایئرپورٹ، امریکی فوجیوں اور افغان شہریوں کو اس وقت خطرہ لاحق تھا۔ دریں اثناء پینٹاگون کے ایک اور ترجمان جنرل ٹیلر نے کہا ہے کہ امریکہ اتوار کو کابل میں دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف اپنے ڈرون حملے میں افغان شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات کر رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان اطلاعات کو کافی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔کابل میں اس جائے وقوعہ پر ایک خاندان کا دعویٰ ہے کہ اس کے 10 افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔جنرل ٹیلر کے مطابق 14 اگست کو امریکی انخلا کے آپریشن کے آغاز سے اب تک ایک لاکھ 22 ہزار کے قریب لوگوں کو کابل سے لے جایا جاچکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اتوار کو 26 فوجی طیاروں اور دو سویلین پروازوں کے ذریعے قریب 1200 افراد کو لے جایا گیا جن میں اتحادیوں کا عملہ بھی شامل تھا۔