کابل (مانیٹرنگ،آن لائن) طالبان کی جانب سے کابل کے گھیراؤکے بعد افغان صدر اشرف غنی استعفیٰ دیکر افغانستان چھوڑ گئے۔افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے اپنے ایک ویڈیو بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔عبداللہ عبداللہ نے عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کی
اور طالبان سے درخواست کی کہ وہ کابل میں داخل ہونے سے پہلے مذاکرات کے لئے مزید وقت دیں، برطانوی خبر رساں ادار کو افغان وزارتِ دفاع کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے۔برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے تاجک میڈیا کے حوالے سے رپورٹ میں کہا کہ صدر اشرف غنی،نائب صدر امراللہ صالح کے ہمراہ کابل سے تاجکستان چلے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دونوں افراد تاجکستان کے درالحکومت دوشنبے میں ہیں اور ان کے وہاں سے کسی تیسرے ملک روانہ ہونیکا امکان ہے۔خیال رہیکہ 20 سال بعد طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک بار پھر داخل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔افغان وزارت داخلہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان تمام اطراف سے کابل میں داخل ہو رہے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق کابل میں سرکاری دفاتر کو خالی کروا لیا گیا ہے اور طالبان نے کابل جانے والی تمام مرکزی شاہراہوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ذرائع کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ مجاہدین جنگ یا طاقت کے ذریعے کابل میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے،کابل کے پرامن سرینڈر کے لیے طالبان کی افغان حکام سے بات چیت جاری ہے۔ افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار میرز کوال کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کابل پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ قائم مقام افغان وزیر داخلہ نے بتایا کہ معاہدے کے تحت عبوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی پرامن ماحول میں ہوگی۔اس سے قبل افغان میڈیا کا کہنا تھا کہ طالبان کو اقتدار کی منتقلی کے لیے افغان صدارتی محل میں مذاکرات جاری ہیں جس میں عبداللہ عبداللہ ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔