کراچی(این این آئی)کوویڈ19 تقریبا 170 ممالک کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے اور اس کے باعث اب تک لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن اس سے بھی ذیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس کے بارے میں غلط حقائق بھی عوام الناس میں اسی رفتار سے پھیل رہے ہیں۔سنگا پور میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ
بات سامنے آئی ہے کہ سانس لینے، گانا گانے، بات کرنے اور منہ سے خارج ہونے والے ننھے ایروسول ذرات کوویڈ کے پھیلا ئومیں ممکنہ طور پر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ اس کے پھیلنے کی بڑی وجہ کسی متاثرہ فرد کی کھانسی یا چھینکیں ہوتی ہیں، مگر اس کے پھیلا ئوکے حوالے سے سانس لینے، بات کرنے اور گانے جیسی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ معلوم نہیں۔ سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ متاثرہ فرد کے بات کرنے اور گانے کے دوران منہ سے خارج ہونے والے ننھے وائرل ذرات سے بھی یہ بیماری آگے پھیل سکتی ہے۔تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بولنے یا گانے سے بننے والے ننھے ایرول سول ذرات (5 مائیکرو میٹر سے چھوٹے) میں بڑے ایروسولز کے مقابلے میں زیادہ وائرل ذرات ہوتے ہیں۔تحقیق کے مطابق یہ ننھے ذرات ممکنہ طور پر کووڈ کے پھیلا میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں بالخصوص کسی چار دیواری کے اندر۔محققین نے بتایا کہ اگرچہ سابقہ حقیقی رپورٹس میں بات کرنے اور گانے سے خارج ہونے والے ایروسول ذرات کی مقدار پر روشنی ڈالی گئی، مگر یہ جانچ پڑتال نہیں کی گئی اس سے کتنی مقدار میں کورونا وائرس والے ذرات بنتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق یہ پہلی تحقیق ہے جس میں سانس لینے، بات کرنے اور گانے کے دوران بننے والے ایروسولز میں کووڈ ذرات کی تعداد کا موازنہ کیا گیا۔اس تحقیق میں کووڈ کے 22 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو سنگاپور کے نیشنل سینٹر فار انفیکشیز ڈیزیز (این سی آئی ڈی)میں فروری سے اپریل 2021 کے دوران زیرعلاج رہے تھے۔ ان سب افراد کو 3 مختلف سرگرمیوں کا حصہ بنایا گیا۔ان افراد کو 30 منٹ تک سانس لینے، 15 منٹ تک بچوں کی ایک کتاب کی تحریر کو بلند آواز میں پڑھنے اور 15 منٹ تک گانے جیسی سرگرمیوں کا حصہ بنایا گیا تھا۔ان سرگرمیوں کے دوران منہ سے خارج ہونے والے ذرات کی جانچ پڑتال کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ آلات کا استعمال کیا گیا۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل کلینکل انفیکشیز ڈیزیز کے آن لائن ایڈیشن میں شائع ہوئے۔