اسلام آباد ( آن لائن)وزیراعظم عمران خان نے بغیر سود قرضوں کی فراہمی، ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے وژن پاکستان پروگرام لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو خود مختار بنانے کے لیے غربت میں کمی اور ملکی آمدنی میں اضافے کے لیے ہر ممکن قدم اْٹھائیں گے، جس ملک کا حکمران طبقہ کرپٹ ہو تو وہاں کے معاشی حالات خراب ہوتے ہیں۔
وزیراعظم عمران کا کہنا تھا کہ ملک کو آگے بڑھانے کے لئے ایکسپورٹ کو بڑھانا ہو گا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اگر ایٹمی قوت بن سکتا ہے تو چھوٹی چھوٹی چیزیں کیوں نہیں بنا سکتا۔ اسلام آباد میں تین روزہ آئی سی ای سی نمائش کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ نمائش کے اسٹال پر گیا اور وہاں سے مجھے مشورے ملے ہیں۔انہوں نمائش کے منتظمین سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کی تجویز ہے کہ اسلام آباد کے کنونشن سینٹر کو ایکسپو سینٹر بنایا جائے، یہ ایک اچھی تجویز ہے، اس پر میں اپنے کابینہ اراکین سے مشاورت کروں گا۔وزیراعظم نے کہا کہ وژن پاکستان یہ ہے کہ سب سے پہلے لوگوں کو غربت سے نکالیں کیونکہ 40 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے، میرا وژن ہے کہ ان کو کیسے اوپر اٹھایا جائے۔انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے ہم اپنے ملک کی دولت کیسے بڑھائیں، آج جو ایشین ٹائیگرز ہیں وہ 60 کی دہائی میں پاکستان کی طرف دیکھ رہے تھے اور ہم ان کے لیے ماڈل تھے اس زمانے میں ہمارے پاس ٹاپ بینکرز تھے اور پاکستان کو ایشیا کے ٹائیگر سمجھا جاتا تھا حکمرانوں کی کرپشن سے ملک غریب ہوجاتا ہے، ملک کا ایک چھوٹا سا طبقہ امیر ہوگیا لیکن ملک غریب ہوتا رہا اور اب ہمیں گندم کی ریکارڈ پیداوار کے باوجود گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس ملک میں صلاحیت ہے، اگر صلاحیت نہ ہوتی تو کسی وقت میں اوپر نہ جا رہا ہوتا،
اگر بینک قومیائے نہیں جاتے تو ہم بہتری کی طرف جاتے اور اب پاکستان کو واپس وہاں لے جانے کے لیے کیا قدم اٹھانے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ اسی کے ساتھ ہمارا ملک خود دار بنے، ہمیں قرضے لینے پڑتے ہیں، 20 دفعہ آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں ان کا کہنا تھا کہ کسی زمانے میں شوکت خانم کے لیے فنڈز جمع کرنے باہر جاتا تھا
تو امیر ترین پاکستانی ہوتے تھے، پیسہ ان کے پاس ہوتا تھا، تصور نہیں کرسکتے کہ پاکستان کو امداد لینا پڑے۔انہوں نے کہا کہ جن ممالک میں حکمران طبقہ کرپٹ ہوں وہاں ایسے حالات ہوتے ہیںانہوں نے کہا کہ جن ممالک میں حکمران طبقہ کرپٹ ہوں وہاں ایسے حالات ہوتے ہیں، وسائل کے باوجود غربت ہوتی ہے اور تھوڑا سا طبقہ
امیر ہوتا ہے، تو اس کو کیسے تبدیل کرنا ہے، یہ میرا ایک بڑا ژن ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ آخری بات قانون کی بالادستی ہے، طاقت کی بالادستی کے بجائے انصاف کرکے بڑی سطح پر تبدیلی آئے گی، نیچے سے لوگوں کو اٹھائیں گے اس کے بڑے طریقے ہیں، اس کے لیے احساس پروگرام لے کر آئیں گے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے
مثال بنے گی، ایسا کام کر رہے ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ ہم 9 تاریخ کو بڑے دھوم دھام سے افتتاح کر رہے ہیں، اس پروگرام میں جو 40 فیصد طبقہ جو نیچے ہے، ہر خاندان کے ایک فرد کو ٹیکنیکل تعلیم دی جائے گی، خاص کر آئی ٹی کے شعبے میں جلدی تربیت حاصل کرکے پیسے کمانا شروع کر سکتے ہیں خاندان کو
صحت کارڈ دیا جائے گا جس کے تحت وہ کسی بھی ہسپتال میں 10 لاکھ روپے تک علاج مفت کروا سکے گا تیسری چیز بلاسود قرضے دیے جائیں گے، اگر شہر میں ہیں تو دکان اور کوئی کاروبار اور دیہات میں ہیں کسان کے لیے سود کے بغیر قرضہ ملے گا کم لاگت پر گھر دیا جائے گا اور ان خاندانوں کو مائیکرو فنانس کے ذریعے ہم ان کو
پیسے دیں گے، ان کے پاس گھر بنانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کچی آبادیاں بن جاتی ہیں، کراچی تقریباً 40 فیصد کچی آبادی بن چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے عدالتوں سے قانون نکالنے کے لیے بڑی جدوجہد کی، جب تک قانون نہیں ہوگا کہ اگر کوئی قسط نہیں دیتا تو بینک ایکشن نہیں لے سکے گا تو
وہ قرضے نہیں دیں گے، اسی لیے پاکستان میں ہاؤس فنانسنگ کا تصور نہیں ہے۔پاکستان میں صفر اعشاریہ 2 فیصد گھروں کے لیے قرضے دیے جاتے ہیں، بھارت میں 10 اور ملائیشیا میں 30 فیصد، یورپ اور امریکا میں 80 فیصد قرضے دیے جاتے ہیں، اس قانون کے تحت پاکستان میں پہلی دفعہ موقع ملے گا کہ وہ بینک سے قرضے لے
کر گھر بنا سکے جبکہ حکومت بھی ان کو سبسڈی دے رہی ہے پاکستان میں ہاؤسنگ کے شعبے میں بڑا انقلاب آرہا ہے اور اسے پھر عام لوگوں کو اپنی چھت ملے گی اور اس سے اہم یہ کہ اس سے صنعت چلے گی اور شہروں میں سب سے زیادہ روزگار تعمیرات سے ملتی ہے اور ٹیکس کے ذریعے بھی سرمایہ جمع ہوگا۔عمران خان نے کہا کہ اب میری توجہ ہوگی کہ ملک میں برآمدات کیسے بڑھانی ہیں اور درآمدات کا متبادل کیسے تیار کرنا ہے، کیونکہ
جب پاکستان میں زیادہ ڈالر نہیں آئیں گے اور ملک میں خسارہ رہے گا تو آگے نہیں بڑھے گا، اگر ملک کو آگے بڑھنا ہے، دولت میں اضافہ کرنا ہے تو برآمدات میں اضافہ کرنا پڑے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ملک کو آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی سے بچانا ہے اور اس کے لیے ہم درخت لگائیں اور سبزہ بڑھائیں کیونکہ جنگلات زیادہ ہوتے ہیں تو بارشیں ہوتی ہیں، آلودگی کم ہوتی ہے اور اس سے درجہ حرارت کم رہتا ہے۔