اسلام آباد (این این آئی)وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان کو باہر سے نہیں چلایا جا سکتا،مستقبل کی تمام اقتصادی حکمتِ عملیوں کا انحصار افغانستان میں امن سے منسلک ہے، پاکستانی عوام افغان عوام کو پڑوسی کے بجائے بھائی سمجھتے ہیں،افغانستان میں امن کی اشد ضرورت ہے، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خانہ جنگی کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ظاہر ہوں گے،
پاکستان ہمیشہ بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے مگر بھارت امن نہیں چاہتا، بھارت ا س وقت آر ایس ایس کے نظریئے کے زیرِ تسلط ہے۔ وہ پاک افغان یوتھ فورم کے اراکین سے ملاقات کے بعد ان کے سوالات کے جواب دے رہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس اب کھیل کیلئے وقت نہیں، بہت سے دیگر مسائل ہیں، افغانستان کی کرکٹ ٹیم میں جتنی بہتری آئی ہے کسی ٹیم میں نہیں آئی۔وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے ازبکستان کے ساتھ مزار شریف پشاور ریلوے لائن کے لیے پہلے ہی سمجھوتہ کیا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری مستقبل کی تمام اقتصادی حکمتِ عملیوں کا انحصار افغانستان میں امن سے منسلک ہے، پاکستانی عوام افغان عوام کو پڑوسی کے بجائے بھائی سمجھتے ہیں۔وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن کی اشد ضرورت ہے، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خانہ جنگی کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ظاہر ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی ہے کہ اب افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا، صدر اشرف غنی سے اچھے تعلقات ہیں۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے خطے کا کوئی اور ملک پاکستان کی کوششوں کی برابری کا دعوے دار نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کوششوں کی تائید امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کی،
بدقسمتی سے افغانستان میں غلط تاثر ہے کہ پاکستان کو عسکری ادارے کنٹرول کرتے ہیں۔وزیرِ اعظم عمران خان نے بتایاکہ یہ سراسر بھارت کا پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے، میرا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ سیاسی طریقے سے ہے، حکومت کو اس موقف پر عسکری اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔انہوں نے
کہاکہ افغان رہنمائوں کا پاکستان کو افغان بحران کا ذمے دار ٹھہرانا انتہائی افسوس ناک ہے، میری حکومت کی خارجہ پالیسی گزشتہ 25 سال سے میری پارٹی کے منشور کا حصہ رہی ہے۔عمران خان نے کہا کہ پاکستان دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افغانستان میں امن چاہتا ہے، افغانستان میں امن سے پاکستان کو وسطِ ایشیائی
ممالک تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔انہوںنے کہاکہ ازبکستان کے ساتھ مزار شریف پشاور ریلوے لائن کے لیے معاہدہ کر چکے ہیں، ملکوں کے تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ لانگ ٹرم اور نیچرل ریلیشن شپ ہی افغانستان اور پاکستان کیلئے لازمی ہے، پاکستان نے پہلے امریکا اور پھر افغان حکومت
اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے سخت جہدوجہد کی۔بھارت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 5 اگست کو بھارت نے کشمیریوں کا حق چھینا، جس کے بعد پاکستان نے بھارت سے تمام تعلقات منقطع کر لیئے۔عمران خان نے کہا کہ 5 اگست 2019ء سے بھارت نے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے نئے باب کا آغاز کیا، پاکستان 1948ء سے کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے عالمی سطح پر آواز بلند کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ
بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت تبدیل کی، 5 اگست کے اقدامات واپس لینے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے تک بھارت سے بات نہیں ہو سکتی۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے مگر بھارت امن نہیں چاہتا، بھارت ا س وقت آر ایس ایس کے نظریئے کے زیرِ تسلط ہے۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں، دیگر مذاہب اور اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا ہے، یہی محرکات بھارت کے ساتھ امن میں بڑی رکاوٹ ہیں۔