اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نور مقدم کا سفاکانہ قتل ہوئے ایک ہفتہ ہو نے کو آرہا ہے لیکن اس کے گھر پر ایک پراسرار اور بھیانک خاموشی طاری ہے جو کبھی سماجی سرگرمیوں کا مرکز اور زندگی سے بھرپور ہوا کرتا تھا یہاں آنے والوں خصوصا ًکھوج لگانے کی جستجو میں صحافیوں کو وہاں تعینات ایک نجی سیکیورٹی گارڈ نے اندر جانے سے روک دیا۔روزنامہ جنگ میں فرحان بخاری کی
شائع خبر کے مطابق گارڈ کا کہنا ہے کہ وقوعہ کے وقت موجود تمام افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ عمارت میں ایک ایس یو وی سمیت تین فینسی گاڑیاں موجود تھیں لیکن گارڈ نے اپنے فرائض منصبی بتانے میں تذبذب سے کام لیا ۔ وہ تفتیشی پولیس اہلکاروں کے لئے گیٹ کھولنے اور بند کر نے کا فریضہ انجام دیتا رہا۔اسلام آباد کے رہائشیوں خصوصاً ایف سیون فور میں رہنے والوں کے نزدیک یہ پر اسرار معمہ ابھی حل طلب ہے ۔ اس وقت قریبی نگراں کیمروں سے لی گئی فوٹیج پولیس کی تحویل میں ہے ۔قریب میں رہائش پذیر ایک خاتون کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پڑوسی کس طرح اس لڑکی کی جان بچانے کے آوازوں کو نظر انداز کر گئے۔ ہوسکتا ہے اس وقت بلند آواز میں موسیقی سے نور مقدم کی آواز دب گئی ہو ۔ اس سانحے سے ایف6 سیکٹر میں موجود تھیراپی ورکس کلینک پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ایک دیئے گئے موبائل سیل نمبر کو ملانے پر ایک خاتون زینب نے بتایا کہ ان کے وکیل نے کسی استفسار پر جواب نہ دینے کے لئے کہا ہے۔ وہ خود اپنا بیان جاری کریں گے تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ نور مقدم کا مبینہ قاتل ظاہر جعفر ان کے تھیراپی سینٹر کا ایک طالب علم ہے۔تفتیشی پولیس اہلکار ظاہر جعفر کی منشیات کی عادت کے بارے میں بھی چھان بین کر رہے ہیں ۔