لاہور( این این آئی) شوبز کو خیر باد کہنے والی رابی پیرزادہ نے کہا ہے کہ دین سے دوری نے ہمیں غفلت میں مبتلا کر رکھاہے ، خدا کی ذات کے سامنے سر بسجود ہوئے بغیر اس کا قرب حاصل نہیں کیا جا سکتا ،جن لوگوںکو دنیا میں رب تعالیٰ کی طرف سے ہدایت مل جائے وہی حقیقت میں کامیاب اور خوش نصیب لوگ ہیں ۔ ایک انٹرویو میں رابی پیرزادہ نے کہا کہ
یہ سچ ہے کہ جب میں شوبز کی رنگین دنیا سے وابستہ تھی تو مجھے دین کے بارے میں اتنا علم نہیں تھا لیکن جب سے شوبز چھوڑا ہے تو بہت کچھ سیکھا ہے اور مجھے جو اطمینان نصیب ہوا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ انہوںنے کہاکہ اسلامی معاشرے میں عورت کو جو عزت اور مقام دیا گیا ہے اس کی دوسری کوئی مثال نہیں ،اسلام میں صرف بھلائی کا درس دیا گیا ہے ۔ دوسری جانب نامور فوک گلوکار عارف لوہار نے کہا ہے کہ ماں او رباپ کسی بھی انسان کیلئے سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں اور جب یہ سایہ نہیں رہتا تو پھر دنیا کی تپش محسوس ہوتی ہے ، مجھے حالیہ چند ماہ میں بڑے دکھ اٹھانا پڑے ہیں لیکن میں اپنے رب کی رضا پر راضی ہوں ۔ ایک انٹر ویو میں عارف لوہار نے کہا کہ والد کے بعدوالدہ کا اس دنیا سے چلے جانا میرے لئے سب سے بڑا صدمہ ہے ، اب میرے پیچھے کوئی دعا کرنے والا نہیں رہا ۔اس سے چند ماہ پہلے میری اہلیہ کا انتقال ہوا اور یہ دکھ ایسے ہیںجو انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ میں ہمیشہ اپنے رب سے صبر کی دعا کرتا ہوں کیونکہ میں اپنے رب کی رضا پر راضی ہوں ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے کہ جوبھی اس دنیا میں آیا ہے اس نے واپس اپنے رب کے پاس واپس جاناہے ۔دوسری جانب سینئر اداکار جاوید شیخ کہا ہے کہ ’مجھے بچپن سے کام کرنے کا شوق تھا
لیکن راولپنڈی میں میرے چار پانچ دوست کچھ میلے کچیلے اور گندے سے تھے جن کے ساتھ مل کر ہم فلمیں دیکھتے تھے، ایک دن اداکار بننے کی خواہش میں والد کے 100روپے چوری کیے اور اسٹیشن سے لاہور کا ٹکٹ کٹواکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ایک انٹرویو میں جاوید شیخ نے بتایا کہ مجھے بچپن سے کام کرنے کا شوق تھا لیکن
راولپنڈی میں میرے چار پانچ دوست کچھ میلے کچیلے اور گندے سے تھے جن کے ساتھ مل کر ہم فلمیں دیکھتے تھے، ایک دن اداکار بننے کی خواہش میں والد کے 100روپے چوری کیے اور اسٹیشن سے لاہور کا ٹکٹ کٹواکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔جاوید شیخ نے بتایا کہ ’اس وقت میری قسمت اچھی تھی کہ میں نے لاہور جانے سے پہلے محلے
کی ایک حلوائی کی دکان سے 2 روپے کے لڈو خرید لئے، حلوائی نے کچھ ہی دیر بعد والد سے ملاقات میں انہیں میرے لڈو خریدنے کا بتایا‘۔ انہوں نے کہا کہ ‘والد حلوائی کی بات سن کر حیران ہوگئے اور کہا کہ 2 روپے کے لڈو کیوں؟ اس زمانے میں 2 روپے بھی 5 ہزار سے زیادہ ہوا کرتے تھے، حلوائی نے والد کو بتایا کہ میرے پاس 100 روپے تھے اور اس نے 2 روپے کے لڈو دے کر مجھے 98 روپے واپس کئے۔جاوید شیخ نے کہا کہ ’حلوائی کی
بات سن کر والد کو شک ہوگیا وہ فوراً گھر گئے اور اپنے پیسے چیک کیے، والد نے کچھ دوستوں کو لیا اور سب ہمیں ڈھونڈنے نکل گئے، دو دوستوں کے ہمراہ والدصاحب ہمیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے سٹیشن پہنچ گئے جہاں ٹرین چلنے میں صرف10 منٹ باقی تھے اور ہم پکڑے گئے اس کے بعد گھر لے جاکر الٹا لٹکا کر پٹائی کی گئی۔اداکار نے کہا کہ ’اگر وہ ٹرین چل پڑتی تو کیوں کہ میں گھر سے بھاگ کر ، پڑھائی چھوڑ کر جارہا تھا کسی اچھی جگہ نہ ہوتا اس کے بجائے میں آج کوئی بد معاش ، جیب کترا یا منشیات کاعادی ہوجاتا‘۔