اسلام آباد(این این آئی)سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن میں انکشاف ہواہے کہ تمام ائیرپورٹس پردھماکہ خیزموار کی نشاندہی کرنیو الے آلات ہی موجود نہیں ہیں ،262مشکوک پائلٹوں کے لائسنس میں سے 82جعلی ثابت ہوچکے ہیں، امریکہ پاکستانی کی فضائی حدود استعمال کے پیسے نہیں دے رہاہے ،سوات ائیرپورٹ پی آئی اے کی فلائٹس بند ہونے سے
غیرفعال ہوگیاہے ائیرپورٹ کی توسیع پر ایک ارب روپے خرث کررہے ہیں ،پی آئی اے کی ری سٹکچرنگ کررہے ہیں ،پی آئی اے پر455ارب روپے قرض واجب ادا ہے،کمیٹی نے اگلے اجلاس میں سی ای او پی آئی اے کو طلب کرلیا،جعلی پائلٹس کی ڈگریوں کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت بھی طلب کرلی گئی۔سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس چیئرمین ہدایت اللہ کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس میں دلاور خان، شیری رحمن، سلیم مانڈوی والا، رضا ربانی، افنان اللہ، فیصل سلیم رحمان، عون عباس، فیصل جاوید، محمد صابر شاہ نے شرکت کی۔وزیر ہوابازی غلام سرور خان، سیکرٹری ایوی ایشن، چیئرمین سی اے اے ،اے ایس ایف اور دیگر حکام نے شرکت کی۔سیکرٹری سول ایوی ایشن شوکت علی نے کمیٹی کوبتایاکہ پی آئی اے پر 455ارب روپے کاقرض واجب ادا ہے، ہماری کوشش ہے ،پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے۔کابینہ کو ری اسٹریکچرنگ پلان بھیجوایا گیا ہے، دلاور خان نے کیاکہ پی آئی اے کاخسارہ
کیوں بڑ رہاہے پی آئی اے کو پی پی پی موڈ پرکیوں چلایا نہیں جاسکتاہے۔سیکرٹری نے کہاکہ پی آئی اے کی ری سٹکچرنگ ہورہی ہے، پی آئی اے کی فی جہاز ملازمین کی تعداد 4سو سے زیادہ تھی جس کو کم کرکے 250تک لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔وفاقی وزیر غلام سرور نے کہاکہ ملک میں مزید فضائی کمپنیاں آرہی ہیں،ڈی جی سول ایوی ایشن
نے کمیٹی کوبتایاکہ سی اے اے میں 8313ملازمین کام کررہے ہیں سی اے اے کو گذشتہ مالی سال 51969ملین روپے آمدن ہوئی۔رضا ربانی نے کہاکہ کیا امریکہ جو پاکستان کی ائیر کوریڈور استعمال کررہے ہیں کیا وہ چارجز دے رہے ہیں؟ ڈی جی سی اے اے نے کہاکہ دس سال سے امریکہ ہمیں فلائنگ چاجز نہیں دے رہا ہے ،کوویڈور کو استعمال کیا جارہاہے،
ڈی جی سی اے اے نے کہاکہ انڈیا کی سول ائیرلائن ہماری حدود استعمال کرتے ہیں،انٹرنیشنل ائیر کوریڈور کی حدود کا تعین ہوتا ہے۔ انڈیا کے ملٹری ائیرلائنز ہماری فضائی حدود استعمال نہیں کرتی،سوات اپریشن بند کر دیا کیونکہ ایک فلائٹ میں صرف چھ مسافروں نے سفر کیا۔ سوات ائیرپورٹ پر ایک ارب روپے خرچ کررہے ہیں،سینیٹر افنان اللہ خان نے
کہاکہ چکلالہ ائیرپورٹ کا کنٹرول کس کے پاس ہے؟ ڈی جی سی اے اے نے کہاکہ چکلالہ کا کچھ حصہ سی اے اے کی پراپرٹی ہے اور کچھ ائیر فورس کے پاس ہے۔ وزیراعظم کے فیصلہ کے مطابق چکلالہ ائیرپورٹ ائیر فورس کے زیر استعمال ہے۔ سیکرٹری نے کہاکہ چکلالہ ائیرپورٹ پی اے ایف کے پاس ہے، ٹرمینل پی آئی اے کے پاس جائیگی، پارکنگ
سی اے اے کو دی جائیگی کہ وہ اس پر کمرشل سرگرمیاں شروع کریں گی۔سی آئی اے کی زمین کے حوالے سے ایک کمیٹی بن گئی ہے جو اس مسئلے کو حل کریگی۔ڈی جی سی اے اے نے کہاکہ سکردو میں ایک انٹرنیشنل ائیرپورٹ بنائیں گے موجودہ ائیرپورٹ 3سو سے زیادہ مسافروں کو ہینڈل نہیں کرسکتے ہیں، سکردو ائیرپورٹ کی توسیع سے انٹرنیشنل
فلائیٹس کو اپریٹ کرسکیں گے۔کمیٹی ارکان نے کہاکہ پشاور ائیرپورٹ ہر پارکنگ کا شدید مسئلہ ہے بس اڈہ بن گیا ہے،حکام سی اے اے نے کمیٹی کوبتایاکہ سیاحت کے فروغ کیلئے ٹیپری کے تحت 3لائسنس جاری کئے ہیں،82لائسنس جعلی ثابت ہوئے 50منسوخ کردیئے جبکہ 32کے لائسنس معطل کئے ہیں۔کل 262پائلٹ لائسنس مشکوک تھے جن کی
تفتیش کی گئی جس میں سے 82 جعلی ثابت ہوئے۔سینیٹر عون عباس نے کہاکہ جعلی لائسنس کے حوالے سے وزیر کے بیان سے پہلے جن کو پائلٹس کے جعلی لائسنس کا علم تھا وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جن لوگوں نے جعلی لائسنس دیئے ہیں پر بھی دفعہ 302لگنی چاہیے۔سینٹر عون عباس نے کہاکہ ان لوگوں کے خلاف کیا ایکشن ہوا جو اس کیس
میں ملوث تھے؟ اگر کراچی طیارہ حادثہ کے پائلٹس کے لائسنس جعلی تھے تو ملوث افراد پر دفعہ 302 کی ایف ائی ار ہونی چاہیے،کیا اس منسٹر سے قبل کسی شخص یا منسٹر کو جعلی لائسنس والا ایشو پتہ نہیں تھا؟ مسٹر صاحب نے انکوائری کروا کر بہت بڑا کام کیا۔اس بات پر انکو داد دینی چاہیے، پائلٹس کے لائسنسگ کی اپوزیشن ہے وہ بھی تفصیلات آئند
اجلاس میں لائیں خصوصی طور پر کراچی طیارہ حادثہ کے پائلٹس کے لائسنس کی تفصیلات بھی شامل ہوں، 44کل ائیرپورٹ ہیں 27آپریشنل ہیں 12بین الاقوامی ائیرپورٹ ہیں۔شیری رحمن نے کہاکہ سی ای او پی آئی اے کو کمیٹی میں بلائیں وہ کمیٹی میں کیوں نہیں آئے۔سی ای او پی آئی آئی اے کمیٹی کی ہدایات پر بھی عمل نہیں کرتے،آج پہلا اور اہم کمیٹی
اجلاس ہے، سی ای او کیوں موجود نہیں؟گزشتہ کمیٹی نے جنسی ہراساں کیس میں ایک سینئر آفیسر کے خلاف ایکشن لیا تھا، اس جنسی طور پر ہراساں کرنے کے کیس پر سب کمیٹی بنائی گئی تھی،کمیٹی نے اس اسپیشل اسسٹنٹ کو ایوی ایشن سے ہٹانے کا حکم دیاتھا، آج وہ اپنی جگہ بیٹھا ہے، اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا،معلوم ہوا ہے کہ اسے ہٹانے کہ
بجائے اسے پروموشن دی گئی ہے، سابقہ کے کمیٹی کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں کیا گیا،سی ای او سے وضاحت طلب کی جائے کہ سابق کمیٹی کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟کیا سی ای او قانون سے بالاتر ہیں؟ سی ای او پی ائی اے کسی کمیٹی میٹنگ کیوں نہیں آتے؟ سی ای او پی ائی اے کو بلایا جائے،سی ای او پی ائی اے کو بلایا جائے خاتون
ہراسمنٹ والے واقع پر ابھی تک کمیٹی سفارشات پر کیوں عمل نہیں ہوا؟حکام پی آئی اے نے بتایاکہ افیسر نے عدالت میں جاکر اسٹے آرڈر لے لیا ہے، خاتون عدالت میں پیش نہیں ہوئی۔ عون عباس نے کہاکہ آپ نے اسکو پندرہ بیس دن کا وقت تاکہ وہ اسٹے لے لیے۔ شیری رحمان نے کہاکہ کس عدالت سے اس نے اسٹے آرڈر لیا ہے؟ حکام نے بتایاکہ شاید
اسلام اباد ہائیکورٹ سے لیا گیا یہاں مینشن نہیں ہے۔شیری رحمان نے کہاکہ اطہر من اللہ ایسے کیسز میں بالکل سٹے آرڈر نہیں دیتے، میں اکیلی نہیں ہوں اس کیس میں پوری کمیٹی کو تشویش ہے۔سی ای او پی ائی اے آئیندہ کمیٹی میں اس کی فائل ساتھ لائیں،خصوصی طور پر اسکی کال ریکارڈنگ بھی ساتھ لائیں اس میں ہوشرباء گفتگو ہے۔کمیٹی جے آئندہ اجلاس
میں سی ای او پی ائی اے کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔حکام اے ایس ایف نے کمیٹی کوبتایاکہ اے ایس ایف کے کل ملازمین کی تعداد14560ہے جبکہ ان میں 551افسران ہیں۔سینٹر افنان اللہ نے سوال کیاکہ آپ نے لکھاہے کہ آپ کے پاس آلات کی کمی ہے بتائیںآپ کے پاس کون سے آلات کی کمی ہے؟ اے ایس ایف حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ اے ایس ایف کے
پاس ائیرپورٹس پر دھماکہ خیز مواد چیک کرنے والے آلات نہیں۔حالیہ حالات کے تناظر میں اسکی اشد ضرورت ہے۔ارکان کمیٹی نے کہاکہ کمیٹی کو تمام تفصیلات بتائیں حکومت سے سفارش کریں گے،تمام آلات کی فراہمی یقینی بنائیں۔ چیرمین کمیٹی نے کہاکہ کمیٹی کو ان کیمرہ اجلاس میں تمام آلات کی کمی کے حوالے بتائیں۔جو آپ یہاں نہیں بتا سکتے۔کمیٹی نے اے ایس ایف کو آلات کی کمی پوری کرنے کی یقین دہانی کروائی۔