کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) ایف آئی اے نے ایک برس سے زیرالتوا 80ارب سے زائد کی مبینہ ٹیکس چوری اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات پر سابق سینیٹر تاج آفریدی کی دو کمپنیوں کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ واضح رہے کہ تاج آفریدی نے بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر 2021ء میں بھی سینٹ کا انتخاب لڑا مگر وہ جیتنے میں ناکام رہے۔ تاج آفریدی کا 2015ء میں
آزاد سینیٹر منتخب ہونے سے پہلے کوئی سیاسی کیریئر نہیں تھا البتہ ان کے بھائی الحاج شاہ جی گل آفریدی 2013ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے خیبر ایجنسی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔روزنامہ جنگ میں اسد ابن حسن کی خبر کے مطابق ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ زون عامر فاروقی نے سابق سینیٹر تاج آفریدی کے خلاف ہونے والی تحقیقات کی تصدیق کی ہے۔ سابق سینیٹر تاج آفریدی کا اُن کے خلاف تحقیقات ہونے سے انکار۔ دستاویزات کے مطابق اس میگا اسکینڈل کا تعلق سابق سینیٹر تاج آفریدی کی دو کمپنیوں الحاج انٹرپرائزز اور النور انٹرپرائزز پرائیویٹ لمیٹڈ سے ہے۔ اس حوالے سے ایک درخواست عدنان آفریدی نامی شخص نے کراچی زونل آفس میں درخواست بھجوائی جس پر 7ستمبر 2020ء کو اس کو ویری فکیشن پروسیس میں ڈال دیا گیا اور اس کی تحقیقات 17/2020 کو کارپوریٹ کرائم سرکل کے انسپکٹر فضل محمد کو تفویض کی گئی۔ بعد میں یہ تحقیقات انسپکٹر عطاء اللہ میمن نے شروع کی اور صرف دو ماہ بعد ہی یہ رپورٹ تیار کی کہ ’’درخواست کنندہ نامعلوم لگتا ہے اور اس کا
ای میل بھی جعلی ہے، لہٰذا اس کی تحقیقات بند کردی جائیں۔‘‘ اس کے بعد 29دسمبر 2020ء کو ایک اور مراسلہ زونل آفس تحریر کیا گیا کہ مذکورہ الزامات کی تحقیقات فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو منتقل کردی جائیں۔ اس معاملے میں سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ایف آئی اے میں ویری فکیشن اور انکوائریاں برسہابرس زیر التوا رہتی ہیں مگر اس اتنے بڑے اسکینڈل کی تحقیقات صرف دو
ماہ میں ہی ختم کرنے کی سفارش کردی گئی۔ ایف آئی اے کو موصول ہونے والی درخواست میں بیان کیا گیا کہ افغانستان میں نیٹو افواج کو پہلے پاکستان اسٹیٹ آئل ایندھن (جیٹ فیول اور ڈیزل) فراہم کرتی تھی اور حکومتی خزانے میں 17فیصد کسٹم ڈیوٹی جمع کرواتی تھی۔ پھر اثر و رسوخ کے استعمال کے بعد یہ ٹھیکہ سینیٹر تاج آفریدی کی کمپنی الحاج انٹرپرائزز پرائیویٹ لمیٹڈ اور النور پٹرولیم پرائیویٹ لمیٹڈ کو دے دیا گیا۔
اس کے بعد غیر ممالک سے ایندھن کے جہاز پاکستان آنا شروع ہوئے اور ایک جہاز پر لائے گئے ایندھن کی قیمت کسٹم کو 3ملین ڈالر ظاہر کی گئی تھی۔ مذکورہ کمپنی نے ایک محتاط اندازے کے مطابق 250ایندھن سے بھرے جہاز نیٹو کو سپلائی کیلئے پاکستان منگوائے۔ اس طرح 3ملین ڈالر کو اگر 250سے ضرب دیا جائے تو یہ رقم 750ملین ڈالر یعنی
پاکستانی کرنسی میں 80ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ درخواست میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ الحاج گروپ کی غیر ممالک میں بھی آف شور کمپنیاں قائم ہیں جن میں الحاج انرجی، الحاج انرجی اینڈ ٹریڈ ڈی ایم سی سی اور الحاج جنرل ٹریڈنگ کمپنی ایل ایل سی شامل ہیں۔ درخواست میں بتایا گیا ہے کہ نیٹو سے ایندھن کی فروخت میں وصول ہونے والی رقم مبینہ طور پر دبئی اور پھر امریکا
منی لانڈر ہوتی رہی ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ رہی کہ الحاج گروپ کے ساتھ ایک بھارتی کمپنی سے بھی شراکت رہی ہے۔ بھارتی کمپنی آلسا کے الحاج گروپ کی ایندھن اسٹوریج ٹرمنل میں بھی شیئرز ہیں اور دونوں شراکت داروں کے شارع فیصلے پر دو پٹرول پمپس بھی ہیں۔ اس حوالے سے جب سابق سینیٹر تاج آفریدی سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو پہلے تو اُنہوں
نے صاف انکار کیا کہ ان کے گروپ کے خلاف ایف آئی اے میں کوئی تحقیقات چل رہی تھیں یا ہیں، بعد میں اُنہوں نے مزید کہا کہ ایک درخواست ایف آئی اے کو نامعلوم شخص کے نام سے موصول ہوئی تھی اور قانون کے مطابق نامعلوم پر تحقیقات نہیں کی جاسکتی ۔ تاج آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ ان کو کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا ہے۔ اسی حوالے سے ڈائریکٹر سندھ زون ایف آئی اے عامر فاروقی نے تصدیق کی کہ پہلے کارپوریٹ کرائم سرکل میں تحقیقات ہوئیں مگر ان کے چارج سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے یہ تحقیقات اینٹی کرپشن سرکل کو تفویض کی تھیں اور اب باقاعدہ انکوائری نمبر 42/2021کے تحت اے سی سی سرکل میں تحقیقات چل رہی ہیں۔