کابل (این این آئی )افغان صدر اشرف غنی نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے ہی 2 سال پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا تھا کہ امریکا افغانستان چھوڑ دے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اپنے ایک بیان میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ملک میں موجودہ تشدد کے ذمہ دار طالبان ہیں جس میں ہر روز 200 سے 600 افراد مارے جا رہے ہیں۔اشرف غنی کا کہنا تھا کہ طالبان سے پوچھا جانا
چاہیے کہ وہ اب کس لیے لڑ رہے ہیں اور اس سے کس کا فائدہ ہو گا۔دوسری جانب ماہرین نے کہا ہے کہ افغانستان میں مسلح گروہ کی برتری سے مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔میڈیارپورٹس کے مطابق مبصرین کو خدشہ ہے کہ اگر افغان طالبان اسی طرح اپنی پیش قدمی جاری رکھیں گے اور مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیں گے تو مقبوضہ کشمیر میں بھی مسلح عسکریت پسندی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ معروف دفاعی تجزیہ کار اور سابق بھارتی فوجی افسر پروین سوہنی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرطالبان دوبارہ اقتدارمیں آتے ہیں تو کشمیر پر اس کا یقینی طور پر اثر ہو گا۔ سوہنی نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کے زیر قیادت موجودہ حکومت زیادہ دیر اقتدار میں نہیں رہ سکے گی۔سوہنی کے بقول طالبان جنگجو مٹی کے فرزند ہیں۔ وہ پہلے ہی ملک کے بیشتر حصوں پر کنٹرول کا دعوی کر رہے ہیں۔ ایسے میں نیٹو کے انخلا کے بعد، مجھے کشمیر پر اس کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔نئی دہلی میں سکیورٹی امور کی ماہر آکانکشا نارائن نے کہا کہ سن 1989
میں افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے بعد، ماضی میں سوویت کے خلاف لڑنے والے مجاہدین، چیچنیا، کشمیر اور مشرق وسطی جیسے دیگر غیرملکی مسلح تنازعات میں شریک ہو گئے تھے۔ اس مرتبہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد موجودہ غیرملکی تنازعات میں اِن جنگجوئوں کی شمولیت کے امکانات ہیں۔ اس لیے بھارت کو کشمیر میں عسکریت پسندوں کو شہ ملنے کے
حوالے سے خدشہ ہے۔سکیورٹی امور کے ماہر راہل بیدی نے کہا کہ جموں کشمیر میں بھارتی فوج اور مقامی پولیس نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سکیورٹی اور انٹیلی جنس کا ایک مضبوط نیٹ ورک تیار کیا ہے۔ بیدی کے بقول بھارت اب بہتر طریقے سے تیار ہے اور پاکستان کی طرف سے آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرسکتا ہے۔