اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر ہمیں اپنے سافٹ امیج کو فروغ دینا ہے تو پاکستانیت کو فروغ دینا ہو گا، پاکستانی فلمی صنعت نے ابتدا میں ہی بھارت کی نقالی شروع کردی تھی، دنیا میں صرف اصل چیز بکتی ہے، نقل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، مہنگی سے مہنگی پینٹنگ لے لیں اور اچھی سے اچھی
کاپی کر لیں،اس کی کوئی قدر نہیں، نصرت فتح علی خان کا انتقال نہ ہوتا تو مغرب میں بہت نام ہوتا،چاہتا ہوں ہماری فلمی صنعت میں کچھ اصل اور نئی سوچ لے کر آئیں،میرا زندگی کا تجربہ ہے جو شخص ہارنے سے ڈرتا ہے، وہ کبھی جیت نہیں سکتا، ہمیشہ جیت اسی کی ہوتی ہے جو بڑے بڑے خطرات مول لیتا ہے،پاکستان میں سب سے زیادہ آمدن کا سبب سیاحت ہو گی،اگر ہمیں اپنے سافٹ امیج کو فروغ دینا ہے تو ہمیں پاکستانیت کو فروغ دینا ہو گا۔ہفتہ کو نیشنل امیچر شارٹ فلم فیسٹیول سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ پاکستان میں نیا آغاز ہے، مجھے یہ شارٹ فلمز دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اب ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان کی فلمی صنعت کے ارتقا کا عمل دیکھا ہے اور میرے خیال میں ہم ابتدا میں ہی غلط سمت میں جانا شروع ہو گئے کیونکہ ہم ہندوستان کی فلمی صنعت سے اتنے متاثر تھے کہ ہم نے ان کی نقالی شروع کردی لہٰذا ایک پاکستانیت یا اپنی سوچ بنانے کے بجائے ہم نے ایک دوسری ثقافت کو اپنا لیا۔ انہوں نے کہاکہ 60 اور 70 کی دہائی میں ہندوستانی فلم دیکھنے کابل جاتے تھے اور ریڈیو پر گانے آتے تھے جس کی وجہ یہ سوچ تھی کہ وہ بہتر انڈسٹری ہے اور ہم ان کی نقالی کریں گے تو لوگ ہمیں بھی دیکھیں گے جبکہ ہمارے ٹی وی میں بہت مختلف کلچر آنا شروع
ہو گیا تھا اور ہمارا ٹی وی ہندوستان میں دیکھا جاتا تھا۔عمران خان نے کہا کہ دنیا میں صرف اصل چیز بکتی ہے، نقل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، مہنگی سے مہنگی پینٹنگ لے لیں اور اس کی اچھی سے اچھی کاپی کر لیں لیکن اس کی کوئی قدر نہیں ہے، دنیا صرف اصل چیز کو اہمیت دیتی ہے۔انہوں نے نصرت فتح علی خان کی مثال دیتے ہوئے
کہا کہ میں نے دنیا بھر میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کیلئے تقاریب میں نصرت فتح علی خان کو متعارف کرایا اور بڑے بڑے انگلش پاپ اسٹارز ان کے گن گانے لگے، بعد میں کئی پاکستانی پاپ اسٹارز نے مجھ سے کہا کہ میں انہیں بھی متعارف کراؤں تاہم ان کی کوئی اہمیت اس لیے نہیں تھی کیونکہ وہ مغربی بینڈز کی کاپی کرتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ اہمیت صرف نصرت فتح علی خان کی تھی اور اگر ان کا انتقال نہ ہوتا تو وہ مغرب میں بہت بڑا نام بننے لگا تھا کیونکہ وہ ان کے ہنر کی بہت عزت کرتے تھے۔وزیر اعظم نے کہا کہ جب ہم انگلینڈ جاتے تھے تو ہمارے سینئرز کہتے تھے کہ ہم انگلینڈ سے جیت نہیں کتے، ہم یہاں صرف سیکھنے آئے ہیں، ہم پر نوآبادیاتی دور کا
اتنا اثر تھا کہ ہم دورے سے پہلے ہی ہار چکے تھے اور ہم جیتے ہوئے میچ بھی ہار جاتے تھے تاہم پھر ہم ان سے جیتنا شروع ہوئے اور اس میں بھی ہم ان کی تکنیک کی نقل کرتے تھے۔انہوں نے کہاکہ بعد میں ہم نے اپنے فن ایجاد کیے جس پر بعد میں دنیا نے عمل کیا جس میں ریورس سوئنگ بھی شامل ہے اور ہم ون ڈے کرکٹ میں اسپنرز
خصوصاً لیگ اسپنرز سے وکٹیں لے کر جیتے اور یہ تکنیک بھی دنیا میں پہلے کبھی کامیاب نہیں اپنائی گئی اور بعد میں دنیا نے ہماری پیروی کی۔انہوں نے کہا کہ میں چاہتا کہ ہماری فلمی صنعت میں کچھ اصل اور نئی سوچ لے کر آئیں، جب وزیر اعظم بنا تو میں نے یہی کہا کہ ہماری فلموں میں نیا مواد کم ہے، ہم ہالی وڈ یا بالی وڈ سے متاثر
ہیں، مجھے بارہا کہا گیا کہ اگر ہم کمرشل مواد نہ لائیں تو لوگ دیکھتے ہی نہیں ہیں، ہماری فلم فلاپ ہو جائے گی۔عمران خان نے کہا کہ ہالی وڈ میں فحاشی کو فروغ دیا گیا جو وہاں سے ہوتی ہوئی بالی وڈ تک آئی اور یہاں بھی اسی طرح کے کلچر کو فروغ دیا گیا، میں نے اس وقت ترک صدر طیب اردوان سے درخواست کر کے ارطغرل
ڈرامہ پاکستان لے کر آیا، اس میں ایک متبادل ثقافت ہے جسے لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے نئے فلمسازوں کو مشورہ دیا کہ وہ ناکامی سے نہ گھبرائیں اور اپنی اصل چیز لے کر آئیں، یہ میرا زندگی کا تجربہ ہے کہ جو شخص ہارنے سے ڈرتا ہے، وہ کبھی جیت نہیں سکتا، ہمیشہ جیت اسی کی ہوتی ہے جو بڑے بڑے خطرات مول لیتا ہے۔اس
موقع پر انہوں نے سیاحت کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ آمدن کا سبب سیاحت ہو گی، ابھی تک اس پر توجہ نہیں دی گئی، ہم تاریخی اور مذہبی سیاحت پر بھی توجہ دے رہے ہیں اور پاکستان میں جو منفرد پہاڑی سلسلے ہیں ایسے دنیا میں کہیں نہیں کیونکہ دنیا کی آدھی بلند چوٹیاں ہمارے ملک میں ہیں۔انہوں نے
کہاکہ میں کئی مرتبہ سن چکا ہوں کہ ہمیں پاکستان کے سافٹ امیج کو فروغ دینا چاہیے، یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد شروع ہوا جب ہم نے اس جنگ میں شرکت کی جس کی میں نے ہمیشہ مخالفت کی، اس وقت دنیا نے ہمیں خطرناک اور بنیاد پرستوں کا ملک قرار دیا تو ہم نے دفاعی حیثیت اپناتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کا سافٹ
امیچ ابھرے کا تو دنیا کہے گی کہ یہ بہت زبردست ملک ہے لیکن حقیقتاً سافٹ امیج کوئی چیز نہیں ہوتی، آپ احساس کمتری سے اس چیز پر لگ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سافٹ امیج یہ نہیں کہ ہم ان جیسے کپڑے پہن لیں بلکہ یہ سافٹ امیج خودداری سے آتا ہے، دنیا اس کی عزت کرتی ہے جو پہلے اپنی عزت کرتا ہے، جس میں احساس کمتری
ہوتی ہے وہ دنیا کی نقالی کررہا ہوتا ہے کیونکہ اس میں اعتماد نہیں ہوتا اور دنیا اس کی عزت نہیں کرتی۔انہوں نے کہاکہ اگر ہمیں اپنے سافٹ امیج کو فروغ دینا ہے تو ہمیں پاکستانیت کو فروغ دینا ہو گا، وہ ہمارا سافٹ امیج ہے۔عمران خان نے کہا کہ مجھے اپنے نوجوانوں سے بہت امیدیں ہیں، ہماری 60 فیصد نوجوان آبادی انتہائی باصلاحیت ہے اور یہ تکنیکی صلاحیتیں حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک میں موجود منفرد کہانیوں کو اجاگر کریں گے۔