اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کا حالیہ انٹرویو جو انہوں نے ٹی وی چینلHBO کے میزبان جو ناتھن سوان کو دیا تھا ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی سطح پر زیر بحث آرہا ہے اور متنازع ہو جانے والے اس انٹرویو میں جو وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں ہوا اوراتوار کو نشر ہوا مختلف طبقات کی جانب سے آنے والے تنقیدی رد عمل کے بعد
وزیراعظم اس حوالے سے نالاں ہیں کہ انٹرویو کے بعض حصوں کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے دکھایا گیا جس سے اس کاتاثروہ نہیں آیا جس کا اظہار انہوں نے کیا تھا۔روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم اس صورتحال سے اپنے سٹاف کے ان لوگوں سے بھی خوش نہیں ہیں جنہوں نے اس انٹرویو کے انتظامات کئے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان ایک صاف گو وزیراعظم ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں کسی مصلحت یا تذبذب سے کام نہیں لیتے لیکن خارجہ امور، سفارتکاری سمیت اور ’’بعض ایریاز‘‘ ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ سربراہ مملکت کے بالخصوص انٹرویوز کرنے کے خواہشمند نشریاتی اداروں سے پہلے وزارت خارجہ کا کردار اہم ہوتا ہے اور انٹرویو کا دورانیہ سوالوں کی فہرست اور موضوعات کے حوالے سے تفصیلات حاصل کی جاتی ہیں لیکن وزیراعظم اس طریقہ کار کو ایک’’ غیر ضروری اور روایتی اہتمام‘‘ سمجھتے ہیں جس کی ایک مثال یہاں یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے چند دن بعد وزارت خارجہ کی ایک ٹیم
وزیراعظم کو ایک ابتدائی بریفنگ دینے کیلئے گئی تو وقت نہ ملنے پر انہیں واپس آنا پڑا تھا۔پھر ایسے انٹرویوز میں وزیر خارجہ، سیکرٹری خارجہ یا متعلقہ شخصیت کو انٹرویوز میں ساتھ بٹھایا جاتا ہے۔ لیکن بظاہر یہ ایک’’ ون آن ون‘‘ انٹرویو تھا۔واضح رہے کہ وزیراعظم آفس میں وزارت خارجہ کے ایک ڈائریکٹر جنرل کی بطور خاص ایک آسامی ہوتی ہے اور اس وقت معروف ادیب مستنصر
حسین تارڑ کے صاحبزادے سلجوق تارڑ اس ذمہ داری پر فائز ہیں لیکن وزیراعظم کے گرد اس حوالے سے پروفیشنل افسران کی بجائے معاونین ہی دکھائے دیتے ہیں۔جس باعث ایسی ہی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اپنے اس انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’’مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو پاکستان اور بھارت مہذب
ہمسایوں کی طرح رہ سکتے ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی‘‘۔جس کی لوگوں نےبالخصوص اپوزیشن نے یہ توجہیہ پیش کی وزیراعظم نےپاکستان کا’’ ایٹمی پروگرام‘‘ رول بیک کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے خدشات کی بھرمار ہے جبکہ منگل کو قومی اسمبلی میں بھی اس حوالے سے بازگشت سنی گئی۔دوسری طرف سماجی اور اخلاقی حوالے سے وزیراعظم’’
خواتین اور روبوٹ‘‘ کے عنوان سے دیئے جانے والے جواب سے سوشل میڈیا اور سماجی بالخصوص خواتین کے حلقے میں سخت لفظوں کے ساتھ تنقید کا شکار ہیں۔جوناتھن سوان نے وزیراعظم سے’’ ریپ‘‘ سے متعلق ان کے گزشتہ بیان کے حوالے سے سوال کیا تھا۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کا لباس مردوں کو’’ ریپ‘‘ کی ترغیب کا باعث بنتا ہے جس کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا
کہ اگر خواتین کم کپڑے پہنیں گی تو اس کا اثر مردوں پر تو ہو گا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ جس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔اگر وہ ’’روبوٹ نہ ہوئے تو‘‘ البتہ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ تاہم وزیراعظم کے اس موقف پر خواتین اور مرد
حضرات کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔اس بارے میں معروف صحافی ا نصار عباسی کا اپنے ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ عمران خان نے پردے اور فحاشی سے متعلق بات کی تو ’’لبرلز‘‘ کا ایک بیمار طبقہ ان کے ماضی کو کھنگال کر اور ان کی پرانی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کررہا ہے۔ اگر عمران صاحب کل غلط تھے اور اج پردے کے حق اور فحاشی کیخلاف بات کررہے ہیں تو ان کی تعریف کرنی چاہئے اللہ سب کو ہدایت دے۔عمران خان چونکہ صرف وزیراعظم کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ کرکٹ کے حوالے سے بھی ملک میں اور بیرون ممالک مقبول شخصیت ہیں اس لئے ان کے خیالات کی ستائش اور ان پر تنقید دونوں میں ملک میں بھی اور ملک سے باہر بھی بڑے جذباتی انداز میں کی جاتی ہے۔